مسلم لیگ نون نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد پر نصف رضامندی ظاہر کر دی ہے یعنی اب ایک رسمی ہاں کی ضرورت ہے جو میاں نواز شریف کریں گے۔ پنجاب اور مرکز میں عدم اعتماد کی تجویز جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایک، ڈیڑھ برس سے اپنی جیب میں لئے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تجویز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو پیش کی۔ میں شہباز شریف کو جتنا جانتاہوں وہ مفروضوں پر بات نہیں کرتے نہ سنتے ہیں مگر بتانے والے بتا رہے ہیں کہ وہ اس تجویز کے حامی ہیں اورمسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان کے بارے بھی یہی اطلاع ہے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے منی بجٹ تک پاس کروا لینے والی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے پاس کتنے ووٹ ہیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کئی حکومتی ارکان، ٹکٹ کے وعدے پر، مسلم لیگ نواز جوائن کرنا چاہتے ہیں مگر نواز شریف ایسا نہیں کرنے دے رہے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کرنے دے رہے، اس پر ان کا اپنے ملاقاتیوں کو دیا ہواایک ہی جواب ہے کہ وہ حکومت کے پانچ برس پورے کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جہاں ستیاناس ہوا وہاں سوا ستیا ناس ہوجائے مگر تبدیلی والا کیڑا ایک بار مکمل طور پر مر جائے۔
ہلچل اس سے بھی ہوئی کہ آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کوبھی عدم اعتماد کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے مگر یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ چوہدری برادران نے اس تحریک کا حصہ بننے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش قبول کرنے سے انکا ر کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں، وہ صوبے کے طاقتور وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، وہ ایسی وزارت اعلیٰ کیوں قبول کریں گے جس میں انہیں ایک چوں چوں کے مربے کی محتاجی کرنا ہو گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری یہ آفرز کس کے ایما پر لے کر جا رہے ہیں۔ کیا مسلم لیگ نون نے ایسی کوئی پیش کش کی ہے کہ اگر پنجاب میں تبدیلی آئے گی تو وہ وزارت اعلیٰ قاف لیگ کے حوالے کر دے گی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ابھی ایک ، دو روز پہلے ہی گجرات میں نواز شریف کے قریبی ساتھی صنعتکار کو قاف لیگ میں شامل کیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جو پرویز مشرف کی کھلی ڈلی آمریت میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے وہ اب کیوں ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ہلچل کی وجہ ایم کیو ایم کی شہباز شریف سے ملاقاتیں بھی ہیں اور بلوچستان کی ان انتخابات سے قبل جنم لینے والی پارٹی باپ کی حکومت سے ناراضی بھی ہے مگر کیا یہ بات درست نہیں کہ یہ اتحادی اس سے پہلے بھی سیاست کی منڈی میںا پنا بھاؤ بڑھاتے رہے ہیں۔ سو، سوال یہ بھی ہے کہ اب ایسا کیا ہو گیا ہے جو پہلے نہیں تھا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی۔
چلیں، میں یہ تصور کر لیتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی جو قاف لیگ ، ایم کیو ایم اور باپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اب قومی اسمبلی میں ان چھوٹے گروپوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی وغیرہ بھی موجود ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھان متی کا کنبہ کسی وزیراعظم پر اتفاق کر سکتا ہے اور اگر وہ اتفاق کر بھی لے وہ وزیراعظم کتنا طاقتور ہو گا ۔ تحریک انصاف پر اثرات دیکھئے کہ آپ عمران خان کو اقتدار سے الگ کر دیتے ہیں اور عمران خان بہرحال نواز شریف نہیں کہ لحاظ کرتے رہیں۔ عمران خان اپنی تمام تر ناکام گورننس کے باوجود ’ سیاسی شہید‘ بن کر باہر نکل آتے ہیں اور دما دم مست قلندر کر دیتے ہیں۔ یوں ملکی سیاست میں ایک کھچڑی پک جاتی ہے جس کا فائدہ کسی سیاستدان کو بہرحال نہیں پہنچے گا۔ حالات تو یہاں تک بھی جا سکتے ہیں کہ کوئی کہہ دے، پیارے ہم وطنو، ملکی حالات آئین اور قانون کے مطابق چلنے کے قابل نہیں رہے تھے، کرپٹ سیاستدانوں نے ایک مرتبہ پھر انت مچا دی تھی لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین کو معطل کر دیا جائے، اچھے سیاستدانوںکو سامنے لایا جائے اور پھر نوے دنوں ( یامہینوں) میں صاف شفاف انتخابات کروا دئیے جائیں۔
میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے تصور سے پہلے کچھ اور تصور کرنا چاہتا ہوں کہ اس پوری موو کا فائدہ کیا ہو گا۔ ابھی اپوزیشن متحرک ہوئی ہے تو عمران خان دباؤ میں آ گئے ہیں اورانہوں نے اپنی پارٹی کو ملک بھر میں جلسوں کے ذریعے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ملکی سیاست میں مارچ بہت اہم ہونے جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان میں ملک کی اہم ترین تقرری کے بارے فیصلہ کرنا ہے۔کون جانے، وزیراعظم کاامیدوار کون سا ہے اور اپوزیشن کا امیدوار کون سا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آصف علی زرداری کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ کسی خطرے سے کھیلنے کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔ وہ بہت محفوظ گیم کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ ان کے گھر آجائے۔ یہ بات وہم و گمان سے ہی نکال دی جائے کہ وہ نواز لیگ یا کسی دوسرے کو فائدہ دینے والی کوئی چال چلیں گے۔ ویسے میں میاں نواز شریف سے بھی کسی ایسے فیصلے کی توقع نہیں رکھتا جس سے کسی دوسرے کا فائدہ ہو، جی ہاں، چاہے وہ دوسرا ان کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔اب منطقی طور پر یہی ہوتا نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن، پی ڈی ایم کی پارٹیاں اتحاد ٹوٹنے کے باوجود ، تحریک عدم اعتماد والا دانہ چگنے کی طرف جا ئیں گی الا یہ کہ نواز شریف اسے ویٹو نہ کر دیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر انہیں میرے کالم کا تیسرا پیراگراف کسی طرح پڑھوا دیا جائے وہ شائد اس فیصلے کو ویٹو کر د یں تاہم اس پوری تحریک کا پس منظر کچھ اور ہے جس کا ابھی چند فقروں پہلے ذکر کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن عمران خان کو دباؤ میں لانے کے لئے استعمال ہو گی یا نہیں ۔
ہمارے کچھ دوستوں کا گمان ہے کہ جناب عمران خان سے تیس نومبر کی تقرری کا والا فیصلہ کروانا ہی نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس نے نہیں کروانا، یہ کس کے مفادات کے خلاف جا رہا ہے اور اس پر اپوزیشن کو متحرک کون کر رہا ہے۔ اب یہ مت کہیے گا کہ جناب آصف زرداری ، باپ اور ایم کیو ایم فی سبیل اللہ متحرک ہوئے ہیں اور مسلم لیگ نون کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی ا چانک ہی ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ نون میں ایسا نہیں ہوتا، ادارے تب ہی بلائے جاتے ہیں جب ان کا اچھا سا استعمال ہو۔ اس تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا اگر جناب عمران خان نے اپنی مشہور زمانہ یوٹرن تھیوری کے تحت فیصلہ بدل لیا تو اپوزیشن کہاں کھڑی ہو گی۔ اپوزیشن کی اس وقت واحد کامیابی یہ ہے کہ اس سے ٹوئیٹر پر ’ سلیکٹڈ جا رہا ہے‘ کو ٹاپ ٹرینڈ بنوا دیا ہے۔ میں دکانداری کے ایک اصول کے بارے جانتا ہوں کہ اگر کوئی آپ کی بھرپور مارکیٹنگ کے باوجود آپ کی پراڈکٹ نہ خرید رہا ہو تو دوسرا کام یہ کریں کہ اس کا دل مخالف کی پراڈکٹ سے بھی کھٹا کر دیں۔ عمران خان کے جانے کے پروپیگنڈے کو طاقت دینا بھی حکومت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے جس کے بعد ہر وزیر مشیر کو اپنی پڑجاتی ہے۔
اس پوری صورتحال میں سمجھ کسی کو کچھ نہیں آ رہی مگرکٹھ پتلیوںکے کھیل میں مزا سب کو آ رہا ہے۔