پاکستان کومعاشی ،تجارتی اور دفاعی نوعیت کے سنگین مسائل درپیش ہیں اِن مشکلات کی بنا پر چاہنے کے باوجود خطے میں غیرجانبدار رہا ہی نہیں جا سکتااور کسی نہ کسی عالمی طاقت کی طرفداری مجبوری ہے اِس امتحان کے دوران کیسے ملکی مفاد کا تحفظ کرنا اور عوام کو خوشحال بناناہے یہ سوچنا قیادت کااولیں فرض ہے مگرقیادت کے رویے سے غیر سنجیدگی جھلکتی ہے پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے مسائل حل ہونے کے بجائے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے دور کیوں جائیں اپنے مشرقی ہمسائے کی طرف دیکھ لیں جو آجکل امریکہ کی آنکھ کا تارا ہے جوہری معاہدوں سے لیکر جنگی طیاروں اور دیگر ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری کے منصوبوں کے باوجود یوکرائن ایشوپر امریکہ کے خلاف ووٹ دیتا ہے کیونکہ روسی مخالفت مول لینا نہیں چاہتا اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُسے بخوبی معلوم ہے چین کے خلاف وہ امریکہ کی مجبوری ہے اسی لیے دونوں عالمی طاقتوں سے کبھی منت سماجت سے اورکبھی بلیک میلنگ سے فوائد حاصل کر تاہے وہ ایک طرف روس سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے تو امریکہ کے بھی قریب ہے بیک وقت دو متحارب عالمی طاقتوں سے تعلقات میں ایسا توازن حیران کُن ہے لیکن یہ اُس کی قیادت کا کمال ہے اِس میں ہماری قیادت کے لیے بھی سبق ہے ۔
چین کو عالمگیر معیشت کا حصہ بنانے کے لیے امریکہ نے کئی دہائیوں تک کافی نرمیوں سے کام لیا اوراضافی سہولتیں دیں اپنی کمپنیاں کو بھی کُھلی آزادی دی کہ جتنی چاہیں چین میں سرمایہ کاری کریںیا صنعتیں لگا کر مال تیار کریں اور پھر اِس مال کوپوری دنیا میں بیچنے پر کوئی قدغن نہ آنے دی 2020کی چین امریکہ تجارت پر نظر ڈالیں تو چین نے اِس سال کے دوران امریکہ کو 452ارب ڈالر کا مالِ تجارت یا خدمات فروخت کیں حالانکہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں اب خاصا تنائو اوردونوں ہی ایک دوسرے کی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگاتے رہتے ہیں پھر بھی تجارتی توازن چین کے حق میں ہے اسی لیے امریکہ شور مچاتا ہے کہ امریکہ کوچین کی برآمدات بہت زیادہ لیکن درآمدات بہت ہی کم ہیںاِس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے یہ طے کرنا ملک کے معاشی پالیسی سازوں کا کام ہے اگر طریقہ کار بنا لیا گیا تو نہ صرف خسارہ بلکہ قرضوں کا بوجھ بھی ختم ہو سکتا ہے خوش قسمتی سے چین کے بعد رواں ماہ کے آخری ہفتے میں عمران خان روس کے اہم دورے پر جارہے ہیںیہ 23سال بعد کسی پاکستانی وزیرِ اعظم کا دورہ ہوگا جسے پاکستان کے لیے نفع بخش بنانے پرپالیسی سازوں کو کام کر نا چاہیے عمران خان کے حالیہ دورے کے دوران چین نے چاول ،سیمنٹ کے علاوہ زرعی مصنوعات کی درآمد بڑھانے کا عندیہ دیا ہے اسی طرح روس کو بھی اپنے مال کی منڈی بنانے کی راہ تلاش کی جائے تو ملک کو معاشی گرداب سے نکالناآسان ہو سکتاہے۔
امریکہ اور یورپ کئی دہائیوں سے ہر شعبے میں شراکت دار ہیں نیٹو جیسے دفاعی معاہدے نے دفاعی حوالے سے بھی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے
ناگزیر بنا دیا ہے مگر سرمایہ کاری ہو یا صنعت کاری دنیا چین کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی بنا پر یورپ کا درآمدی اور برآمدی حجم امریکہ سے زیادہ چین کے ساتھ ہو گیا ہے اور یہ فرق ہر گزرتے برس کے دوران بڑھتا جا رہا ہے اِس فرق کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی تمام کاوشیں رائیگاں ہوتی نظر آتی ہیں مخاصمت کے باوجود بھارت کا بھی درآمدات اور برآمدات میں چین پر انحصار بڑھ رہا ہے اسی لیے باوجود کوشش کے دنیا کاچین سے لاتعلق ہونا ممکن ہی نہیں یہ حالات پاکستانی قیادت سے تقاضا کرتے ہیں کہ دوراندیشی سے فیصلہ کرے اور صنعتی و زرعی پیداوار بڑھانے کے ساتھ نئی منڈیاں بھی تلاش کی جائیںمگر بدقسمتی سے کچھ عرصے سے ملک خوراک میں خود کفیل نہیں رہا اسی لیے تیل کی درآمدات کے ساتھ زرعی مصنوعات کا درآمدی بل وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے چینی تجربات سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
خطے کے حالات پاکستان کو چین کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں مگر روس افغان جنگ کے دوران جذباتی ہوکر کافی نقصان اُٹھایا جا چکامگر چین سے تعلقات کی بنا پر مغربی دنیا کو مخالف بنا نا بھی عقلمندی نہیں دونوں کے تعلقات میں توازن لایا جا سکے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی مگر اِس کے لیے غور وفکر سے ایک راہ متعین کرنا ہوگی بغیر سوچے سمجھے ہونے والے فیصلے نقصان کا موجب بن سکتے ہیں علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا دنیا کے ہر بکھیڑے میں ہم نے ہی حصہ لینا ہے یاپُرخطر حالات کو دواندیشی سے اپنے لیے ہموار بنانا ہے ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکہ کے قرب و جوار میں کئی ملک اُس کے حامی نہ ہونے کے باوجودنہ صرف اپنی آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ ترقی کی منازل بھی طے کررہے ہیں اسی طرح روس اور چین کے کئی ہمسائے بھی ایسے حالات سے دوچار ہیں لیکن کشیدگی کے باوجودالگ اور خود مختار تشخص پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور جذباتی ہوئے بغیرعالمی طاقتوں سے معاشی تعاون بھی جاری رکھے ہوئے ہیں پاکستان کو بھی کچھ ایسا انداز اپنا نا چاہیے تاکہ جوہری طاقت کے بعد معاشی طاقت کی منزل کا حصول ممکن ہو سکے۔
کوئی ملک بغیر مفاد کے کسی ملک پر نوازشات نہیں کرتا بلکہ مفاد کے تناظر میں دستِ تعاون بڑھاتا ہے روس کا مخالف ہونے اور 1969میں چین امریکہ مراسم اُستوار کرانے کی وجہ سے ہی امریکہ نے کچھ مہربانیاں کیں اور کئی برس تک امریکی صدر جوہری پروگرام کے حوالے سے کانگرس کو ہر چھ ماہ بعد سرٹیفکیٹ دیکر یہ یقین دہانی کراتارہا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کر رہا عرب اسلامی ملک پاکستان کی بجائے بھارت کو اِس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُن کا مفاد بھارت سے وابستہ ہے ایران اور افغانستان بھی بھارت کے اسی لیے طرفدار ہیں کیونکہ بھارت سرمایہ کاری کرتا ہے لیکن وسائل سے محروم پاکستان جوخود قرض کا متلاشی ہے کسی ملک میں سرمایہ کاری کی پوزیشن میں نہیںاسی طرح ہم خود کو چین کا تذویراتی اتحادی سمجھتے ہیں مگر حالات اِتنے بھی اچھے نہیں جتنے ہمیں محسوس ہوتے ہیں موجودہ دورِ حکومت میں چینی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی ہوئی ہے اوردوطرفہ تجارت بھی چین کے حق میں ہے اگر اِس میں توازن نہ لایا گیا تو بڑھتا تجارتی خسارہ مزیدمعاشی مسائل جنم دے سکتا ہے۔
منڈیاں تلاش کرنے کے ساتھ ہمیں ملک میں صنعت و زراعت کو فروغ دینا ہو گا جب ہم چین کی ترقی پررشک کرتے ہیں تو ہمیں کچھ سیکھنے پر بھی توجہ دینا ہو گی چین میں صنعتوں کے لیے گیس ،بجلی اور پانی کی قیمت بہت کم ہے سستی اور ہنر مند افرادی قوت دستیاب ہے اسی لیے مال پر لاگت کم آتی ہے سستا اور معیاری مال عالمی منڈی میں کشش کا باعث بنتا ہے ہم نے بھی اگر آگے بڑھنا ہے تو تنازعات میں الجھنے کی بجائے دامن بچا کر چلنا ہو گااِس وقت طالبان کا دنیا میں سب سے بڑا وکیل پاکستان ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ آج بھی افغانستان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں اِس کی وکالت کرتے ہوئے ملکی مفاد نظر اندازکرنا فرائض سے غفلت کے مترادف ہوگا ہمیں درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا دفاعی ضروریات اپنی جگہ مگر قرض لیکر غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کرنے کا سلسلہ بند کرنا اور چین کو جدید ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کرنے پر آمادہ کرنا ہو گا۔