حالیہ دہشت گردی کی لہر نے ایک بار پھر ملک بھر میں امن و امان کے حوالے سے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں،چونکہ ملک کی ترقی ہمارے دشمنوں کو ہضم نہیں ہوتی۔اس لیے اْن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے وطن کو جتنا ہو سکے غیر مستحکم کیا جائے، اْس کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ جیسے گزشتہ ہفتے نوشکی بلوچستان میں دہشت گردوں نے ایف سی کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جس کا بھرپور جواب دیا گیا اور شدید فائرنگ کے تبادلے میں 9دہشت گرد مارے گئے جبکہ ایک افسر سمیت سکیورٹی فورسز کے چار اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ دوسرا واقعہ پنجگور میں ہوا جہاں سکیورٹی فورسز پر حملے میں چھ دہشت گرد ہلاک جبکہ تین فوجی جوان شہید اور چار زخمی ہوئے ، پھر نوشہرہ کے علاقے جلوزئی میں پولیس ٹیم پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے پسپا کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ بلاشبہ بہت بڑی کامیابی ہے جس سے نہ صرف دہشت گردوں کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے بلکہ اس سے ان سمیت پس پردہ قوتوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ یقیناً قوم بھی اس کارروائی پر فوجی جوانوں کو سلام پیش کرتی ہے۔اگر ہم دہشت گردی کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں تو پاکستان میں 2017کے بعد دہشت گردی کی لہر میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی تھی اور 2013میں ملک میں دہشت گردی کے تقریباً چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020میں کم ہو کر 319رہ گئے تھے جس کا سہرا پاک فوج کے آپریشن ضربِ عضب اور ردَالفساد کے سر ہے اور ملک بھر میں انٹیلی جنس معلومات کے ذریعے بہت سے دہشت گردی کے منصوبے ناکام بھی بنائے گئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ریاست کے خلاف ماضی میں انتہائی طاقتور حملے کر چکی ہے۔ دس سال قبل یہ اتنی مضبوط تھی کہ ایک وقت میں اس نے قبائلی علاقوں کی تقریباً تمام ایجنسیوں میں اپنے آپ کو پھیلا دیا تھا تاہم فوج نے 6سال جاری رہنے والے عسکری آپریشنوں کے ذریعے اس تنظیم کا قلع قمع کیا۔ اِس وقت اِس کے پاس بڑے بڑے حملے کرنے کی صلاحیت تو نہیں لیکن اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس قسم کی ’’وار‘‘ سے کیسے نکلے؟ کیوں کہ جب تک دہشت گردی کے سائے ہم پر منڈلاتے ہم ترقی نہیں کر سکتے، باہر سے انویسٹمنٹ نہیں آسکتی، سیاح پاکستان آنے سے کتراتے رہیں گے اور دنیا ہمیں ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھتی رہے گی۔ حالانکہ اس کے لیے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے جانفشانی سے کام کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، مگر کیا وجہ ہے کہ دہشت گردی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک سکیورٹی رسک سٹیٹ ہے جس کے ایک طرف بھارت، دوسری طرف افغانستان، تیسری طرف ایران اور چوتھی طرف چین ہے۔ یہ دنیا کی شاید واحد سٹیٹ ہے جس کے تمام بارڈرز ’’ایکٹو‘‘ ہیں اور ہر طرف سے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ اس وقت ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ ہے۔ اس جنریشن وار کے مطابق آپ کو معاشی، داخلی اور خارجی سطح پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔ اور ہمیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے ازلی دشمنوں نے کسی حد تک تینوں شعبوں میں کمزور کیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کو سمجھنے سے پہلے ہمیں دیگر ’’وارز‘‘ پر غور کرنا ہوگا جیسے کسی زمانے میں فوجیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی تھیں، جس کی فوج زیادہ دلیر، طاقتور وہ جیت گیا۔ پھر ہتھیار اہم ہوئے، جدید ہتھیار، ٹیکنالوجی والے میدان مار لیتے۔ہتھیار جدید ہوتے گئے، معاملہ نیوکلیئر بموں، میزائلوں تک جا پہنچا۔ پھر معیشت زیادہ اہم ہوئی۔سوویت یونین ہزاروں نیوکلیئر ہتھیاروں کے باوجود شکست کھا گئی، اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے کہ معیشت برباد ہوگئی تھی۔یہ سب عسکری اصطلاح کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر، سیکنڈ جنریشن وارفیئر ، تھرڈ جنریشن وار فیئر تھے۔ فورتھ جنریشن وار فئیر میں دہشت گردی کے ہتھیار کو برتا گیا۔ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں پیدا ہوئیں یا کی گئیں جیسے القاعدہ، داعش ، بوکو حرام ، الشباب، طالبان۔پھر عالمی قوتوں کو یہ محسوس ہوا کہ تھرڈجنریشن اور فورتھ جنریشن وار فیئر کے امتزاج کے باوجود بعض جگہوں پر کامیابی نہیں ہو رہی۔ یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں کہیں پر خراب معیشت ، کم عسکری قوت کے باوجود مکمل شکست نہیں ہو پا رہی۔ وہاں قوم کا اتحاد اور یک جہتی رکاوٹ تھی،وطن پرستی اور ایک قوم ہونے کی وجہ سے مزاحمت جاری ہے۔ تب نیا فیز آیا، جسے ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جا رہا ہے۔
یہ نظریات کی جنگ ہے۔مختلف نظریاتی، مسلکی، فکری ایشو کھڑے کر کے کسی بھی قوم کو تقسیم کرنا، پنجگور، نوشکی اور نوشہرہ جیسے چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا کہ یہ ملک کمزور ہو چکا ہے، پھر ان کے مابین ایسی نفرتیں پیدا کر دینا، جس سے کوئی خاص مسلکی، لسانی، علاقائی گروہ یا آبادی اس قدر ناخوش، بیزار اور ناراض ہوجائے کہ ملکی سالمیت کی جنگ اس کے لئے اہم نہ رہے۔ مختلف جگہوں پر اس کے مختلف ماڈل آزمائے گئے۔ کہیں پر حکمران شخصیت یا خاندان کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کرنے، کسی ملک میں حکمران طبقات یا حکمران جماعت کے خلاف نفرت اور شدید غصہ پیدا کرنا۔ جہاں ایک سے زیادہ لسانی ، مسلکی ، علاقائی سیاسی قوتیں یا کمیونٹی موجود ہو، وہاں ان کے باہمی اختلافات بڑھانا،کشیدگی میں اس حد تک اضافہ کہ اتحاد پارہ پارہ ہوجائے اور قومی موقف یا بیانیہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ اس کے مختلف ٹولز یا ہتھیار ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز وغیرہ کو مانیٹر کرنا آسان ہے، وہاں زیادہ گڑ بڑ نہیں ہوسکتی، کسی حد تک سنسر یا کنٹرول میں معاملہ آ جاتا ہے۔
اس لئے زیادہ آسان سوشل میڈیا اور سائبر میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ نفرت انگیزتحریر، تقریر، ویڈیوکلپ ، زہریلا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس وغیرہ وغیرہ۔سوشل میڈیا سائٹس فیس بک، ٹوئٹر کے ذریعے یہ کام کرنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی ملک میں بیٹھ کر بے شمار فیک اکاؤنٹ بن سکتے ہیں۔جنہیں بند کرانا بھی آسان نہیں۔کسی بھی من پسندتحریریا کلپ کو وائرل کیا جاسکتا ہے، وغیر ہ وغیرہ۔لہٰذاہمیں سب سے پہلے ففتھ جنریشن وار کو سمجھنا ہوگا، پھر اْس میں ملوث ممالک کی نشاندہی کرنا ہوگی اور پھر اْس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ہم دہشت گردوں اور دشمن عناصرسے بخوبی نمٹ سکیں۔ کیوں کہ اس وقت دشمن کو نہ تو پاک چین دوستی یعنی سی پیک ہضم ہو رہا ہے، نہ ہی پاکستان کی ترقی ہضم ہو رہی ہے اس لیے وہ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پاکستان کو پسپا کرنے پر تلا ہوا ہے!