کراچی: سندھ کے پانچ ہزار سال قدیم تہذیب یافتہ معاشرے کے عکاس موئن جو دڑو کے آثار کو بچانے اور نئی دریافتوں کے لئے بین الاقوامی کانفرنس لاڑکانہ میں شروع ہوگئی۔
تین روزہ کانفرنس میں ماہرین آثار قدیمہ جدید تحقیق پرمقالے پیش کریں گے۔ موئن جو دڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا اہم مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے 20اور سکھر سے 80 کلومیٹر دور واقع ہے۔ تقسیم پاک و ہند سے قبل محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سرجان مارشل نے سندھ کے اس قدیم آثار میں دلچسپی لیتے ہوئے یہاں کی کھدائی شروع کی، جیسے جیسے کھدائی ہوتی گئی دنیا کے قدیم ترین اور تہذیب یافتہ شہر کی باقیات سامنے آتی گئیں ۔ کھدائی کے دوران یہاں سے مجسمے، مہریں، برتن، اوزار اور زیورات ملے ہیں۔ اس قدیم شہر کی تباہی کی حتمی وجوہات اب تک سامنے نہیں آئی ہیں ۔
ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ موئن جو دڑوکے تحفظ اور مزید دریافت کےلئے 1973میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی زیر صدارت پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی،جس میں موئن جودڑو کو یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
44سال بعد دوسری بار بین الاقوامی کانفرنس موئن جودڑو میں منعقد کی گئی ہے۔کانفرنس میں پاکستان سمیت امریکا، جاپان، اسپین، جرمنی اور بھارت سے بھی ماہرین آئے ہیں ۔