کراچی: گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سندھ حکومت کے تعمیراتی آرڈیننس پر اعتراضات لگا کر مسودہ صوبائی حکومت کو واپس بھجوا دیا۔
گورنرسندھ نےتعمیراتی آرڈیننس پر 14 اعتراضات لگاتے ہوئے کہا کہ غیرقانونی طور پر قبضہ جگہ کی ریگولرائزیشن نہیں ہونی چاہیے بلڈنگ ریگولرائز کرنے سے متعلق جرمانے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ آرڈیننس سپریم کورٹ کےفیصلےسےمتصادم نہیں ہونا چاہیے سندھ حکومت نےجو آرڈیننس بھیجا ہےاس پرنظرثانی کریں آئین اورقانون کےتناظرمیں آرڈیننس پردوبارہ غور کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرڈیننس سے مستقبل میں بھی غیرقانونی تعمیرات بڑھنےکےخدشات ہیں آرڈیننس کی شقوں میں تضاد ہے بہتر کیا جائے آرڈیننس کے بعد جرمانے کے ذریعےغیرقانونی تعمیرات کو تحفظ دیا جا سکےگا۔
اس سے قبل 2 دسمبر کو نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے ایک کمیشن کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی، جس سے کرپشن اور رشوت کا راستہ کھل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کس کی زمین چھوڑنی ہے، کس کی زمین غیرقانونی ہے ، کمیٹی کے بعد الگ بحث چھڑ جائے گی، آرڈینس کا سربراہ ریٹائرڈ جج ہو گا لیکن کمیٹی کے دیگر ممبران مختلف ہوں گے اور جج خود مختار نہیں ہوگا۔ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ کمیٹی ممبر ان کے سامنے رکھیں گے فلاں بلڈنگ پر من مانہ جرمانہ عائد کیا جائے گا تو اس سے پیسہ بنایا جانے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ سندھ حکومت نےغیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے آرڈیننس تیار کر کے منظوری کے لیے گورنر سندھ عمران اسماعیل کو ارسال کیا ہے۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیاجائےگا، جو غیرقانونی تعمیرات کی ریگولرائزیشن کا فیصلہ کرے گا۔ کمیٹی میں سیکریٹری بلدیات و ٹاؤن منصوبہ بندی، چیئرمین آباد شامل ہوں گے۔
سندھ حکومت کے ترجمان نے آرڈیننس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’جب اسلام آباد، پنجاب میں غیر قانونی تعمیرات کی ریگولرائزیشن ہوسکتی ہے تو سندھ میں کیوں نہیں؟ کراچی والےپوچھتے ہیں کارروائی بنی گالہ میں کیوں نہیں کی گئی۔