برسلز: یورپی یونین نے فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں پاکستان میں ہونے والی پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہےاورامید ظاہر کی ہے کہ پاکستان مزید اقدامات کرے گا.
تفصیلات کے مطابق برسلز میں یورپی یونین پاکستان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے چھٹے دور کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں ایف اے ٹی ایف کے بقیہ ایکشن پلانز پر عمل درآمد کی کوششوں کے لئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا ۔
ایف اے ٹی ایف اجلاس کی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امور خارجہ و سیکیورٹی پالیسی کے اعلیٰ نمائندے اور یورپی کمیشن کے نائب صدر جوزف بوریل نے مشترکہ صدارت کی ۔
پاکستان دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے اسٹریٹجک انگیجمنٹ پلان کی بنیاد پر پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان جاری تعاون کا جائزہ لیا۔انہوں نے یورپی یونین اور پاکستان کے باہمی روابط ، بالخصوص سیکیورٹی اور علاقائی تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کا اظہار کیا ۔
اس موقع پر دونوں فریقین نےسال 2022 میں تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلاؤ کے علاوہ انسداد دہشت گردی پر ذیلی گروپوں کے ساتھ نئے یورپی یونین پاکستان سیکیورٹی ڈائیلاگ کا پہلا اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیاگیا ۔
اجلاس میں جوزف بوریل اور شاہ محمود قریشی نے مذہبی آزادی ، بین المذاہب ہم آہنگی، مذہبی رواداری، پرامن بقائے باہمی، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے ساتھ بنیادی آزادیوں کو مضبوط بنانے اور تحفظ دینے کے عزم کا بھی اعادہ کیا ۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دنیا میں اسلامو فوبیا، زینو فوبیا اور مذہبی عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ عزم کی ضرورت پر زور دیا۔دونوں فریقوں نے جی ایس پی پلس، انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور اس سے منسلک گڈ گورننس پر 27 بین الاقوامی کنونشنز کے نفاذ کے لیے مضبوط سیاسی عزم کا اظہار کیا۔
جوزف بوریل نے سزائے موت اور توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر خدشات کا اظہار کیا۔ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ تشدد کی روک تھام اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر قانون سازی کے بل جو پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ہیں، جلد منظور کر لیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے اور وزیر خارجہ نے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور افغانستان میں استحکام کو فروغ دینے اور منشیات سمیت دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے ساتھ مسلسل روابط برقرار رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا۔