لاہور کے حلقہ این اے 133کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدواراسلم گل کو شکست کا سامنا کرناپڑا مگر حاصل کئے گئے ووٹوں کو اگر2018ء میں اسی حلقہ سے پیپلزپارٹی کو ملنے والے ووٹوں کے تناظر میں دیکھاجائے تو یہ پیپلز پارٹی کی بھی جیت اور آئندہ الیکشن کے حوالے سے خوش آئند ہے، سابق صدرآصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کی دوسری قیادت اس کارکردگی پر نازاں ہے اور کارکنوں کو مبارکباد دے رہی ہے، اسے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا’’کم بیک‘‘ بھی قرار دیاجا رہا ہے۔کیاواقعی اسلم گل کو ملنے والے 32ہزار133وو ٹ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں مقبولیت بڑھنے کا ثبوت ہے؟اسلم گل ایک جمہوریت پسند سیاسی کارکن ہیں اورانہوں نے ماضی میں پیپلز پارٹی سے وابستگی کی بھاری قیمت بھی اداکی،وہ حلقہ میں اہم سیاسی مقام رکھتے ہیں،مگر 2008 کے الیکشن کے بعد پنجاب میں پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی گئی،جبکہ ماضی میں یہ جماعت غریب اورمتوسط طبقہ کیلئے امیدکی کرن تھی،مگر عوام کے اعتمادپر پورا نہ اترنے پر پہلے مسلم لیگ ن اور پھر تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی را ہ میں رکاوٹ بنی،ضمنی الیکشن سے پہلے ہونے والے ہر الیکشن میں لاہور کے حلقوں سے اس نے سیکڑوں یا ہزاروں میں ووٹ لئے،این اے 133میں 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے پرویز ملک نے 93ہزار کے قریب ووٹ لئے جبکہ اسلم گل کے حصے میں محض پانچ ہزارووٹ آئے جبکہ تحریک انصاف کے اعجاز چودھری نے 87ہزارووٹ حاصل کئے تاہم ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے کاغذات نامزدگی مستردہوگئے تھے یوں میدان میں دوپارٹیاں تھیں مسلم لیگ ن کے ووٹ نصف سے زائد کم ہوئے حالانکہ امیدوار شائستہ پرویز مرحوم پرویز ملک کی بیوہ ہیں،جنہوں نے93ہزار ووٹ لئے تھے،ہمدردی کے ووٹ کے باوجودبھی شائستہ پرویزآدھے ووٹ بھی نہ لے سکیں،مقابلے میں 2018ء میں پانچ ہزارووٹ لینے والے اسلم گل کو32 ہزار133ووٹ حاصل ہوئے۔
ایسا لگتا ہے جیسے ووٹر مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کی سیاست اور کار کردگی کے مقابلے میں اب پیپلز پارٹی کو بھی آزمانا چاہتے ہیں ، مگراس کافیصلہ تب ہو گا جب یہ معلو م ہو سکے کہ اسلم گل کو ملنے والے ووٹ وہ تھے جو گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو ڈالے گئے تھے یا یہ ووٹ تحریک انصاف کے ہیں جس کا کوئی امیدوار میدان میں نہ تھا،موخرالذکر بات سے اتفاق یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف ن لیگی امیدوارکی ہر حال میں شکست چاہتی تھی اسلئے ممکن ہے اس کے کارکنوں نے اسلم گل کو ووٹ ڈالے ہوں،یہ بھی ممکن ہے کہ آصف زرداری کی جادوکی پڑیا اور مفاہمت کی سیاست کام دکھا گئی ہو جنہوں نے الیکشن کے دنوں میں لاہور میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو متحرک رکھا اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ،قمر زماں کائرہ،چودھری منظور انتخابی مہم میں دن رات مصروف رہے کارکنوں کو منظم اور متحرک کرنے اور دیگرجماعتوں کے سیاسی کارکنوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہوں،ن لیگ کا ووٹ خریدنے کا الزام محض سیاسی پراپیگنڈہ ہے کہ اسلم گل جاگیردار ہیں نہ سرمایہ دار،صنعت کے مالک ہیں نہ بڑے تاجر ہیں،اتنی بڑی تعدادمیں ان کیلئے ووٹوں کی خریداری ممکن ہی نہیں اور یہ بات ن لیگی قیادت بھی جانتی ہے کہ اسلم گل کوئی مالدار شخصیت نہیں مگر ایک جیالے اور سیاسی کارکن ہیں۔
آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ضمنی الیکشن کو حوصلہ افزا قراردیا ہے،اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کے میدان میں نہ ہونیکا پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا اورحلقے میں بھر پور محنت کر کے بہترین نتائج حاصل کئے،مگراس بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہے،تحریک انصاف کے امیدوارکے کاغذات مستردہونے سے جوخلاء پیدا ہواتھااسے پیپلز پارٹی نے محنت اورذہانت سے پرکیا،لیکن یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں تحریک انصاف کی جگہ لے لی ہے،یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کو ن لیگ مخالف جماعتوں عوامی تحریک،تحریک لبیک،اور دیگر کاووٹ بھی ملا ہے،تمام تر تبصروں تجزیوں کے باوجودپیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے،جمہوریت کی قربانیاں کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں۔
بھٹو کی پھانسی کے بعدبینظیر اورپارٹی پر ابتلاء اور آزمائش کاایک لمبااور کڑادورآیا،بے نظیر بھٹو کو حکومت ملی تو پنجاب میں نواز شریف کو ان کے مقابل لاکھڑا کیا گیا،جنہوں نے وزیراعظم ہونے کے باوجود بینظیر کو پنجاب میں داخل نہ ہونے دیا،نواز شریف کو پورے ملک پر حکمرانی ملی سندھ بھی ان کی جھولی ڈال دیا گیا،ن لیگ نے سیاسی مقدمات کے ذریعے بینظیر کیلئے سیاست تو دور کی بات ان کا ملک میں رہنا بھی دشوار کر دیا،آصف زرداری نے طویل جیل کاٹی جو ریکارڈ ہے،یہ وہ حالات تھے جن میں پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب میں سیاست کرناممکن نہ رہا اوروہ پنجاب میں سکڑتی چلی گئی،مسلسل پنجاب پر حکومت کے بعد پنجاب میں ن لیگ کااثر ورسوخ بڑھتا چلا گیابعض لوگوں کے خیال میں ن لیگ اور پنجاب لازم و ملزوم ہو چکے ہیں،مگر میاں منظوروٹو نے صرف 81 ارکان کی مددسے یہ زعم توڑ دیا، چودھری پرویزالٰہی نے مشرف دور میں ثابت کیا کہ پنجاب پر کسی کااجارہ نہیں بلکہ جوکارکردگی دکھائے گا وہ پنجاب میں حق حکمرانی حاصل کر پائے گا،اسوقت بھی عثمان بزدار جیسا نوآموز سیاستدان معمولی اکثریت سے کامیابی کیساتھ ساڑھے تین سال سے حکومت کر رہا ہے ،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست میں کار کردگی کی بہت اہمیت ہے،اب جبکہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں ایک بار پھر اختلافات پھوٹ پڑے ہیں اور ن لیگ نے بھی فضل الرحمٰن کی اسمبلیوں سے استعفوں اوردھرنے کے معاملہ پر پیپلز پارٹی والا موقف اپنایا ہے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی ہے کہ آصف زرداری ہوشمند سیاست دان ہیں،صرف سیاست کے جادوگر ہی نہیں بلکہ مفاہمت اور مصالحت کے بھی بادشاہ ہیں وہ اتحادیوں ساتھیوں دوستوں ہی نہیں دشمنوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتے ہیں،پی ڈی ایم کی تحریک کے عروج کے دور میں جب پارلیمنٹ سے استعفوں اور دھرنے کی بات ہوئی تو زرداری کا مؤقف اس کیخلاف تھا انہوں نے پہلے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کی تجویزدی اور مؤقف اختیار کیا کہ استعفے حکومت کو ریلیف دینے کے مترادف ہو گا،حکومت خالی حلقوں میں الیکشن کرا کے مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے مضبوط ہو جائے گی،حکومت کی اصل طاقت پنجاب ہے اورپنجاب اس سے چھین کر اسے کمزور کیا جاسکتا ہے،مگر تب نوازشریف فضل الرحمن کی زبان بولتے تھے،مگراب فضل الرحمن کے مطالبہ پرانہوں نے یہ کہہ کر لالی پاپ دیدیا کہ استعفے تو جیب میں پڑے ہیں جب مرضی دے دیں،ابھی لانگ مارچ تک محدودرہیں دھرنے کا بھی بعد میں سوچیں گے،جواس بات کا ثبوت ہے کہ ن لیگ شہباز شریف کامفاہمت اور مصالحت کا بیانیہ اپنا چکی ہے اور نوازشریف کا بیانیہ دفن ہو چکا،یہ بھی دراصل آصف زرداری کی جیت ہے،اس تناظر میں پیپلز پارٹی کی حالیہ کارکردگی کواتفاقی سمجھنا شاید درست نہ ہو۔