سقوط مشرقی پاکستان… تکلیف دہ واقعات!

سقوط مشرقی پاکستان… تکلیف دہ واقعات!

یہ المیہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمان اور اس کی جماعت عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آزاد ریاست بنگلہ دیش کے قیام کے اپنے منصوبے یا مقصدکو آگے لیکر چل رہے تھے اور صدر و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آغا محمد یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کوکچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ کیسے معاملات کو آگے لیکر چلیں وہ اپنی رنگ رلیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔ ایک طرف انہیں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی آئے روز کی قلابازیوں ، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں کا سامنا تھا تو اس کے ساتھ عوامی لیگ کی طرف سے آئے روز کے پرتشدد ہنگاموں ،غیر قانونی مطالبات، ہڑتالوں اور پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز نعروں اوروطن دشمن مہم کا بھی سامنا کر نا پڑ رہا تھا تو دوسری طرف عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی (دستور ساز اسمبلی ) میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لیے مختص 138نشستوں میں سے 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے دبائو اور مطالبات کا سامنا الگ تھا۔ بھٹو کا موقف تھا کہ دستور سازی کے لیے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے سے قبل آئین کے اہم نکات کے بارے میں دونوں بڑی جماعتوں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ بھٹو کو شیخ مجیب الرحمان کے حکومت کا سربراہ (وزیر اعظم پاکستان) بننے پر بھی تحفظات تھے یہی وجہ ہے کہ بھٹو ’’ادھر ہم ، ادھر تم‘‘ کا نعرہ بلند کر چکے تھے اس کے ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کر رکھا تھا کہ دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس جس کے 3مارچ 1971کو ڈھاکہ میں انعقاد کا اعلان ہو چکا تھا میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جانے والے ارکان دستور ساز اسمبلی کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ حالات و واقعات کے اس تناظر میں یحییٰ خان کی حکومت نے دستور ساز اسمبلی کے 3مارچ 1971کو ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس کے ملتوی کرنے کا اعلان کردیا تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی طرف سے جاری پر زور احتجاج ، ہڑتالوں ، فسادات اور پرتشدد ہنگاموں میں ہی اضافہ نہ ہوگیا بلکہ اس بات کے چرچے بھی ہونے لگے کہ شیخ مجیب الرحمان کسی بھی وقت آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر سکتا ہے۔ 7مارچ کو ڈھاکہ کے رمنا ریس کور س میں عوامی لیگ کا احتجاجی جلسہ تھا جس میں لاکھوں افراد شریک تھے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شیخ مجیب الرحمان آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کریں گے لیکن شیخ مجیب الرحمان نے پینترا بدلتے ہوئے ایسا کچھ نہ کیا اور نہ ہی آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا حالانکہ اسی دن صبح شیخ مجیب الرحمان کی ذاتی رہائش گاہ کی چھت پر کچھ طلبا نے بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا تو شیخ مجیب الرحمان نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
مارچ 1971میں مشرقی پاکستان بالخصوص ڈھاکہ میں رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ کچھ طویل ہو رہا ہے اس حوالے سے مزید ایک دو باتوں کا ذکر کرنے کے بعد آگے چلتے ہیں۔ بریگیڈیئر صدیق سالک جن کی کتاب کا تذکرہ پہلے آیا ہے وہ رقمطراز ہیں کہ بھارت نے اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے یہ مذموم پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ پاکستانی فوج بنگالیوں کے قتل عام اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے اس میں کچھ حقیقت تھی بھی تو اس سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ مارچ 1971میں جب پاکستان کی مشرق کمان نے فوجی آپریشن شروع کیا تو بنگالی علیحدگی پسندوں ، مکتی بانی کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں نے غیر بنگالیوں جن میں زیادہ تر کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا یا ان میں بہاری شامل تھے ان کا خوب قتل عام کیا۔ ڈھاکہ میں آدم جی جیوٹ ملز اور چٹا گانگ میں اصفہانی جیوٹ ملز کے ملازمین جن کی اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا وہاں ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے اس طرح خون کی ہولی کھیلی کہ اس کی تفصیل جان کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چٹا گانگ کے ایسٹ پاکستان رائفلز سنٹرمیں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جو فوجی تعینات تھے اور ان کی تعداد 600کے لگ بھگ تھی ان کو بھی حیلے بہانوں سے نہتا کر کے ان کے خون سے ہی ہولی نہ کھیلی گئی بلکہ اور اسی طرح ڈھاکہ سے کچھ فاصلے پر دیپ پور میں ایسٹ پاکستان رائفلز کی ایک باغی رجمنٹ میں تعینات مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی درجن فوجیوں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا۔
یہاں اس بات کا حوالہ دینا بھی غیر ضروری نہیں ہوگا کہ بھارت شروع سے ہی چاہتا تھا کہ مشرقی پاکستان کسی طرح متحدہ پاکستان سے الگ ہو جائے یہ اس کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ مارچ 1971میں جب مشرقی پاکستان میں پرتشدد اور خون ریز ہنگامے شروع ہوئے اور پاکستان کی مشرقی کمان کو بنگالی علیحدگی پسندوں اور باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنا پڑا تو بھارت کی دلی مراد بر آئی اور وہ کھل کر مسلح باغی بنگالیوں اور علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے سامنے آگیا ۔ اس نے عوامی لیگ کی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے غنڈوں کو نہ صرف فوجی تربیت دی بلکہ ان کو ہر طرح کا اسلحہ بھی بہم پہنچایا اسی دوران بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے متعلق بروقت فیصلے کیے جائیں گے ۔ چنانچہ چند دن بعد بھارتی لوک سبھا نے مشرقی پاکستان کے بحران کے حوالے سے جو قرار داد منظور کی اس میں کہا گیا "یہ ایوان باغیوں کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو بھارت کی بھرپور ہمدردی اور حمایت حاصل رہے گی"۔ بھارت نے بلاشبہ اپنی لوک سبھا میں منظور شدہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنایا یہاں تک کہ 16دسمبر 1971کو سقوط مشرقی پاکستان کا المناک سانحہ رونما ہوا اور پاکستان دولخت ہوگیا۔
مشرقی پاکستان میں مسلح باغیوں اور علیحدگی پسندوں  کے خلاف  پاکستان کی حکومت کے ضروری اقدامات اور پاکستانی فوج کے مسلح آپریشن کے حوالے سے اس مسلمہ امرکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دُنیا میں کسی بھی ملک میںعلیحدگی کے لئے کوئی بغاوت ہو یا کوئی اور وطن دشمن سرگرمیاںہوں تو انہیں کوئی بھی ملک یا حکومت برداشت نہیں کرتی اور مذاکرات یا بات چیت میں ناکامی کی صورت میںانہیںبزور طاقت کچلنے کی کوشش کرتی ہے۔اس ضمن میں کتنی ہی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔امریکہ جو انسانی حقوق کا بڑا علم بردار ہے وہاں تقریباً اڑھائی سوقبل برس خانہ جنگی شروع ہوئی اور کچھ امریکی ریاستوںنے امریکہ کی وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کی راہ اختیار کی تو اس وقت کے امریکی صدر نے ان کے خلاف سختی سے نمٹنے کے احکامات جاری کئے اور انہیںشکست سے دوچار کیا۔پچھلے اڑھائی تین عشروںکے دوران برطانیہ نے بھی آئرلینڈ کے علیحدگی پسندوں کے خلاف ایسا ہی سخت رویہ نہیں اپنایا بلکہ برطانیہ سے ہزاروں میل دور جنوبی امریکہ میںفاک لینڈمیں برطانوی تسلط کے خلاف ارجنٹائن کی حکومت نے علیحدگی پسندوں کی حمایت میں کچھ اقدامات کئے توبرطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھچر نے برطانوی حاکمیت اعلیٰ کی بحالی کے لئے ارجنٹائن کے خلاف جنگی کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔دور کیوں جائیں ہمارے قریب سری لنکا میں تامل باغیوں اور دوسرے علیحدگی پسندوں کی شورش کو کچلنے کے لئے سری لنکن حکومت مسلسل کئی برس تک برسر پیکار رہی اور بالآخر باغیوں کو طاقت کے زور پرمصالحت اور مفاہمت پر آمادہ کیا۔ان مثالوں کو پیش کر نے کا مقصد یہ ہے کہ  باغیوں، غداروں، علیحدگی پسندوں اور وطن دشمن عناصر کو کوئی بھی مملکت برداشت نہیں کرتی اور حکومتیں اور مسلح افواج مملکت کی سا  لمیت،استحکام اور اس کی حاکمیت اعلیٰ کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں۔ ان اقدامات کو کہیں بھی جبر، ظلم،زیادتی،نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کا نام نہیں دیاجاتا۔ ہماری بد قسمتی کہ ہم کبھی بھی اپنے نقطہ نظر اور مؤقف کو عالمی فورمز پر بہتر طور پر پیش کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی یادیں اور واقعات المناک اور تلخ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش قائم ہو گیا۔ پچاس برس سے دُنیا کے نقشے پر موجود اور ہمیں قبول بھی ہے۔