پاکستانی سیاست میں سوشل میڈیا کا کردار اہم ہوتا جارہا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گزشتہ چند سال سے نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگی،معاشرتی رویے، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پرجو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ ہے سوشل میڈیا۔بہت سی ایسی خبریں جو ٹی وی چینل نہیں چلا سکتے وہ خبریں ہمیں سوشل میڈیا سے مل جاتی ہیںسوشل میڈیا کے منفی اور مثبت اثرات ہماری زندگیوں پر پڑ رہے ہیں۔ اگر ہم اس کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عرب سپرنگ کے نام سے مشہور مشرق وسطیٰ میں اُٹھنے والی عوامی تحریکوں سے لے کر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی تک ،شام کی خانہ جنگی سے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے عروج و زوال تک ،امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات سے لے کر کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل تک ،پی ٹی آئی کے دھرنے سے حکومت تک،ٹی ایل پی کے احتجاج سے لانگ مارچ تک ہونے والے بڑے بڑے واقعات ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلتے ہیں۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ تبدیلی جو سوشل میڈیا کے ذریعے آئی وہ 2010سے ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے بجائے روایتی طریقے اخبار، یا ٹی وی کا ہی استعمال کرتے تھے لیکن اس سوشل میڈیا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔بڑی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے اپنے مقاصد کیلئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا وہیں چھوٹی سیاسی پارٹیوں اور گروہوں جن کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جگہ نہیں ملتی وہ لوگ بھی اب سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتے ہیں تاکہ ان کی آواز عوام تک پہنچ جائے۔
جلسہ گاہوں اور ٹیلی ویژن کے بعد سوشل میڈیا پر سب سے پہلے شہرت پی ٹی آئی نے حاصل کی 2010میں پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل فیس بک اور ٹوئٹر اکائونٹس کا آغاز کیااور مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اس کے بعد ن لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا لیے۔ اس کے ساتھ جب لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے بھی پاکستانی فوج اور اس کی پالیسیوں کا عوام میں مثبت تاثر قائم کرنے کیلئے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے اور ساتھ ہی آرمی چیف کے نام سے ہیش ٹیگ بھی سوشل میڈیا کی زینت بننا شروع ہو گئے اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ہماری فوج کی جانب سے ٹویٹ سامنے آتے ہی رہتے ہیں۔
جب حکومت کسی پارٹی ، میڈیا چینل یا کسی صحافی پر پابندی لگا دیتی ہے تو متاثرہ پارٹی یا شخص سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیتا ہے ، اسی طرح میڈیا پر عائد پابندیوں کے پیش نظر بہت سے پاکستانی صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی خبریں دینے اور اپنی رائے کے اظہار میں عافیت جانی اور کئی بہت بار ایسا ہو چکا ہے کہ ہمارے اداروں اور سیاست دانوں کو خبر سوشل میڈیا سے ہی ملتی ہے۔ٹک ٹاک سٹارز ہمارے اہم اداروں تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس کے پیچھے کسی سیاست دان کا نام نکل آتا ہے اور معاملہ رفع دفعہ ہو جاتا ہے۔
اب میں صرف سیاسی لحاظ سے ہی بات کو آگے لے کر چلوں گی ، 4طرح کے لوگ آپ کو سیاسی لحاظ سوشل میڈیاپر نظر آتے ہیں۔ نمبر1۔نظریاتی کارکن : یہ وہ کارکن ہوتا ہے جس کو سیاست کی سوج بوجھ ہوتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کا پیغام پارٹی نظریے کے مطابق مثبت طریقے سے سوشل میڈیا پر شیئرکرتا ہے اور لوگوں کو اپنی بات کی طرف توجہ دلوانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی پارٹی کا نظریہ کیا ہے ؟ اور وہ لوگوں کو اپنی پارٹی کی طرف آنے کی دعوت بھی دیتا ہے تاکہ پارٹی کے ووٹ بنک میں مزید اضافہ ہو سکے۔نمبر2۔سیاسی کارکن:یہ وہ کارکن ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ اگر کسی دوسری جماعت کی اپنی جماعت کے بارے میں غلط پوسٹ دیکھتا ہے تو فوراً اس پوسٹ پر اپنی رائے دے دیتا ہے جس میں بدتمیزی،گالی اور ایسی ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جس کو یہاں پربیان کرنا مناسب نہیں۔ ایسے لوگ اپنا بھی برا تاثر ناصرف دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی پارٹی کے لئے بھی برے تاثر کا سبب بنتے ہیںجس سے پارٹی کا امیج بھی خراب ہوتا ہے اور عام آدمی اس پارٹی کے بارے میں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔نمبر3۔موسمی کارکن: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں کہ کس پارٹی کی ہوا چل رہی ہے وہ اسی طرف ہو جاتے ہیں اور اسی پارٹی کی پوسٹ کو شیئر اور ری شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ خود سے اپنی کوئی پوسٹ شیئر نہیں کرتے بلکہ لوگوں کی ہی پوسٹ کو شیئر کرتے ہیںاور اسی میں مزہ لیتے ہیں۔ایسے لوگ بہت نقصان دہ ہوتے ہیں یہ لوگ شیئر کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ کون سی پوسٹ اس قابل ہے کہ اس کو شیئر کیا جائے۔ نمبر4۔انتشاری کارکن: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ان کا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا یہ لوگ فیک آئی ڈی بنا کر کسی سیاسی جماعت کا کارکن بن جاتے ہیں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈر کے بارے میں ایسی ایسی پوسٹ بنا کر شیئر کرتے ہیں جس سے دوسری جماعت کے کارکنوں میں غصہ پیدا ہو اور وہ اس کے ری ایکشن میں ان کے لیڈر کی بھی بری بری پوسٹ بنا کر سوشل میڈیا پر شیئرکریں۔یہ انتشاری لوگ ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق غیر ملک سے ہے وہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستان میں انتشار پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔
ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں تاکہ وہ ایک دوسرے کی عزت کر سکیں۔ سیاست دان اسمبلی میں ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملا لیتے ہیںلیکن کارکن ایک ہی محلے میں رہ کر ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہیں کرتے۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال مثبت کریں۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اگرہم کسی بھی قسم کا کوئی انتشاری مواد سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو فوراً اس کو رپورٹ کریں اور اس شخص کو بلاک کریںتاکہ پاکستان کا امن خراب نہ ہو۔