آرمی پبلک سکول کا اندوہناک واقعہ ہوا جس میں 150 کے قریب معصوم طالب علموں کو سفاکیت سے قتل کر دیا۔ اس واقعہ نے قوم کو ہلا دیا اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ اس واقعہ میں براہ راست ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک تو پہنچا دیا گیا لیکن ایسے واقعات کے ماسٹر مائنڈ کو کچلنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہ کیے گئے۔ سب سے بڑھ کر آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کے ذمہ داران کے خلاف کوئی اقدامات نہ کیے گئے۔ خیبر پختون خوا (کے پی کے) حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ جہاں آرمی پبلک سکول واقع تھا وہاں کی سکیورٹی کی ذمہ دار کینٹ انتظامیہ تھی۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا کینٹ کا علاقہ کے پی کے حکومت کی عمل داری میں نہیں آتا؟ کیا ان کی سکیورٹی وہاں کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہ تھی۔ جب تک ہم ذمہ داریاں اٹھانے کے بجائے بہانے بازیاں اور دوسرے اداروں پر ملبہ ڈالتے رہیں گے تو ایک کے بعد ایک سانحہ ہوتا رہے گا۔ کیا آج تک آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کی ذمہ داری کسی پر ڈالی گئی؟ کسی کو کٹہرے میں لایا گیا؟ سانحہ اے پی ایس پر وزیر اعظم عمران خان تو سپریم کورٹ کی طلبی پر عدالت پہنچ گئے لیکن ہمارے اداروں نے سکیورٹی کے حوالے سے از خود نوٹس کیوں نہ لیا؟ اس وقت کی خیبرپختونخوا حکومت کے ذمہ داران یا سکیورٹی پر مامور اداروں کو پوچھ گچھ کے لیے کیوں نہ بلایا گیا۔ جب تک ہم کسی بھی واقعہ کے تمام ذمہ داران کو کٹہرے میں نہیں لائیں گے ایسے واقعات کی بیخ کنی ممکن نہیں۔
اسی خیبرپختونخوا میں مشال خان کا واقعہ ہوا لیکن اسے بھی ہم بھول گئے اور آئندہ ایسے واقعات روکنے کے مؤثر اقدامات آج تک نہ کیے گئے۔ وقتی اُبال ضرور آیا تھا لیکن اس کے بعد ہم اس واقعہ کو بھی بھول گئے پارلیمنٹ نے بھی توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف مؤثر قانون سازی نہیں کی۔ اس کی ذمہ دار پوری پارلیمنٹ ہے جس نے اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ اس کے بعد سانحہ سیالکوٹ ہو گیا اور ایک بار پھر میڈیا اور سول سوسائٹی بھی جاگ گئی لیکن جوں جوں دن گزریں گے ہم اس واقعہ کو بھی بھول جائیں گے۔ سیالکوٹ پاکستان کے چند بڑے ایکسپورٹ کرنے والے شہروں میں شامل ہے اور حالیہ واقعہ کے بعد بھارتی اور عالمی خصوصاً یورپی میڈیا اس واقعہ کو جس طرح اچھال رہا ہے اس سے ہماری برآمدات پر بھی فرق پڑنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
جب بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے ہم تمام تر ذمہ داریاں علما اور مدارس پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ رویہ بھی مناسب نہیں ہمیں بحیثیت قوم اس ذمہ داری کو اٹھانا ہو گا۔ بلاشبہ مدارس کا ہمارے تعلیمی نظام میں بڑا حصہ ہے لیکن ان مدارس کے طلبا اور علما کو بھی جدید تعلیم کے تقاضوں سے بھی روشناس کرانا ہو گا اور سب سے بڑھ کر ان کی عزت نفس اور ان کے روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے تا کہ وہ محض چندے تک محدود نہ رہیں۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہو گا کہ کیا وجہ ہے کہ کسی دوسرے اسلامی ممالک میں ایسے واقعات نہیں ہوتے؟ ہمیں محراب و منبر کو بھی ان اسلامی ممالک کے نصاب سے بھی روشناس کرانا ہو گا۔ آخر ہمارا معاشرہ اور ہماری حکومت نے کوئی بجٹ ان مدارس میں اصلاحات یا ان کے اساتذہ کی تربیت کے لیے کوئی بجٹ مختص کیوں نہیں کیا۔ بدقسمتی سے انتہا پسندی کے تمام تانے بانے مدارس سے جوڑے جا رہے ہیں لیکن ان میں اصلاحات کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے ہر کوئی چھٹکارے کی بات کرتا ہے لیکن اقوام عالم بھی انتہا پسندی کا ذمہ دار ہمارے مدارس کو قرار دیتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مدارس مفت تعلیم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں لیکن ان کے نصاب میں جدت اور جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ نصاب کا اضافہ کر کے ان طالب علموں کو معاشرے کا مفید طبقہ بنایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف سانحہ ساہیوال جیسے واقعات کے ملزمان بھی سزا سے بچ گئے۔ مشال خان اور اس جیسے واقعات میں مجرموں کو سزا نہ ملنے سے بھی مجرم ذہنیت عناصر کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔
تحریک لبیک کے مظاہروں نے ہمارے پورے نظام کو مفلوج کر دیا اور ریاست نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ متعدد پولیس والے شہید ہوئے لیکن ان کے اہل خانہ کا کوئی پُرسان حال نہیں اور نہ ہی حکومت نے ان کی مؤثر داد رسی کی۔ جس کا پولیس کو قلق ہے اور اس کا لا محالہ اثر پولیس کی کارکردگی پر بھی پڑے گا۔
سانحہ سیالکوٹ کی وجہ سے عالمی برادری میں جو ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے وہ بہت افسوسناک ہے۔ لیکن اس پر بھی ہماری سیاسی و مذہبی قیادت بشمول مولانا فضل الرحمان اور پرویز خٹک کے بیانات حوصلہ افزا نہ تھے۔ گو کہ ہماری عسکری قیادت، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا لیکن ہمیں بحیثیت قوم اس سوچ کے خلاف بغیر لگی لپٹی کے ایک پیج پر ہونا ہو گا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ مروجہ قانون سے ہٹ کر مذہبی منافرت پھیلانے اور جھوٹی الزام تراشی پر بھی اسی نوعیت کی قانون سازی کرے تا کہ آئندہ ایسے واقعات کا سد باب ہو سکے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔