کراچی: فرانسیسی ساختہ ڈفنی کلاس آبدوز 1970ء سے 2006ء تک پاکستان کی سمندری حدود کی حفاظت پر معمور رہی جس پر سوار پاک بحریہ کے باہمت آفیسرز اور جوان کڑے دنوں اور کٹھن رتجگوں سے گزرتے ہوئے کھلے پانیوں کی بے پایاں وسعتوں کو عبور کرتے رہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہندوتوا کے پیروکاروں کی مداخلت اورجنگ کے ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر نیول ہیڈ کوارٹرز کی ہدایت پرپاک بحریہ کے تمام بحری اثاثے حرکت میں آگئے۔ 26نومبر 1971رات کے پچھلے پہر ہنگور بمبئی کے ساحلوں پر ایک اہم مہم پر گشت کی غرض سے روانہ ہوئی انتہائی کٹھن اور دشوار نوعیت کی یہ مہم خطرناک تصور کی جارہی تھی جس میں جان لیوا خطرات کا قوی امکان موجود تھا مگراللہ کے سپاہی شوقِ شہادت سے معمور تھے۔
یہ بلاشبہ پاکستان کی بحری قوت میں ایک شاندار اضافہ تھا جس نے پاک بحریہ کی حربی صلاحیتوں کو اوجِ کمال پر پہنچا دیاکیونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کسی آبدوز کے ہاتھوں بحری جہازکی تباہی کا شاندار کارنامہ ہنگور کا نصیب ٹھہرا تھا اس آبدوز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس پر تربیت یافتہ بہت سے آفیسرز پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت کے منصب پر بھی فائز رہے۔
پاک بحریہ کی تاریخی اہمیت کی حامل آبدوزہنگور جس نے 1971میں بھارتی بحریہ کی عددی برتری اور نام نہاد بڑی بحری قوت کے زعم کو بحرِ ہند کی گہرائیوں میں غرق کر دیا تھا عدو کے لیے دہشت کا نشان اور پاکستانی قوم کے فخر اور وقار کی علامت ہے۔
سمندر میں جوانوں کا جوش اورآفیسرز کی سنجیدگی بتاتی تھی کہ بڑے فیصلے لیے جا چکے ہیں جن کی تکمیل کے لیے ہنگور اور اس کے عملے کو چُنا گیا ہے۔ بظاہر تو یہ انتخاب نیول ہیڈ کوارٹرز کا تھا لیکن در حقیقت اس کے فیصلے آسمانوں پر ہوئے تھے کیونکہ ہنگور کی یہ مہم تاریخ کا حصہ بننے والی تھی ۔ 2 اور3 دسمبر کی درمیانی رات کو ہنگور کے ریڈیو آپریٹر نے بھارتی ویسٹرن کمانڈ کے جہازوں کا ایک مواصلاتی پیغام سُن لیاجو کراچی پرمیزائل حملے سے متعلق تھا ۔ ہنگور پانیوں میں چُپ سادھے بیٹھی تھی اسی دوران بھارتی جہازوں کاایک اسکواڈرن اس کے اوپر سے گزر رہا تھا یہ لمحات اعصاب شکن تھے کیونکہ آبدوز کی شناخت ہو جانے کا مطلب یقینی موت تھا۔ ایک وقت پر انڈین جہاز میسورعین ہنگور کے اوپر تھا یہ حملے کا بہترین موقع تھا مگر ابھی تک نیول ہیڈ کوارٹرز سے حملے کے متعلق احکامات موصول نہیں ہوئے تھے۔ دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے تمام نشریاتی آلات اور کمپیوٹر بند کر دیئے گئے تھے۔
3 دسمبر کو بھارتی بحریہ نے دو جہازاس سمت روانہ کر دیے ۔ ہنگور کے سونار آپریٹر نے سطحِ آب پر 6 سے 8 میل کے فاصلے پر دو جہازوں کی نشاندہی کی تھی اور ان پر مسلسل نظر رکھی جا رہی تھی۔4 دسمبر کو نیول ہیڈ کوارٹرز نے ہنگور کو حملے کی اجازت دے دی ۔9 دسمبر کوان کی شناخت آبدوز شکن جہاز ککری اور کرپان کے نام سے کر لی گئی یہ وہی جہاز تھے جو ہنگور کو شکار کرنے کے لئے اُس پیغام کے نتیجے میں آئے تھے جو ہیڈ کوارٹرز کوبطورِ انتباہ بھیجا گیا تھا۔ کمانڈنگ آفیسر نے حتمی پیش قد می کرتے ہوئے حملے کے لیے آبدوز کو سمندر میں گہرا غوطہ لگانے کا حکم دیا۔ تارپیڈو ٹیم اہداف کے درمیانی فاصلے، تارپیڈو کی صلاحیت اور اپنی حکمتِ عملی کا بغورجائزہ لے رہی تھی ۔ وقت آہستہ آہستہ رینگ رہا تھاہر گزرتے لمحے کے ساتھ تجسّس بڑھ رہا تھا۔ سانسیں خاموش ، گوش بر آواز اورذہن ہر لمحہ بدلتی صورتِ حال کے مطابق خود کو ڈھال رہے تھے۔فاصلہ بتدریج کم ہو رہا تھا ۔کمانڈنگ آفیسر کمانڈر احمد تسنیم،نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورتِ حال کا جائز ہ لیا اورفائر کا حکم دے دیا۔ شام7 بج کر45منٹ پر کرپان پر تارپیڈو داغ دیا گیا تارپیڈو اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہا تھالمحاتی حرکات آلات پر دیکھی جا رہی تھیں تمام لوگ دھماکے کی آواز سُننے کے لیے بے چین تھے ۔ وقت گزر گیا مگر دھماکے کی آواز سنائی نہیں دی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ کرپان کے سمت تبدیل کرنے پر تارپیڈو نے اپنا ہدف کھو دیا۔ دشمن اس بات کا بخوبی اندازہ لگا چکا تھا کہ اُن پر تارپیڈو سے حملہ ہوا ہے۔ یہ خطرناک صورتِ حال تھی کیونکہ دشمن حملے کی جگہ کا تعین کر چکا تھا۔ کرپان جیسے ہی حواس باختہ ہو کر فائرنگ رینج سے نکلا ککری جنوب کی سمت سے آبدوز پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔
تارپیڈو ٹیم کی تمام تر توجہ اپنے دوسرے شکار پر مرکوز تھی جس نے پُرسکون رہ کر تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ککری کو نشانے پر لیا۔ دہائیوں پر محیط پاک بحریہ کے افراد کی کٹھن اور دشوار گزار تربیتی مشقیں ایسے ہی اعصاب شکن لمحات میں پُرسکون رہتے ہوئے دشمن کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ہنگور نے جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کے سارے مراحل سے بخوبی گزرتے ہوئے دوسرا تارپیڈو ککری پر داغ دیا ،تارپیڈو ہدف کی طرف لپکا اور اس دفعہ نتیجہ مختلف تھا۔سونارآپریٹر پیٹی آفیسر مسکین چلاّیا صتار پیڈو یٹ“ جس کا مطلب تھا ضرب کاری اور نشانہ بے خطا ہے۔ بھارتی ہٹ دھرمی کی بڑی قیمت ککری نے عملے سمیت سمندر بُرد ہو کر چکائی۔ ہنگور کایہ شاندار کارنامہ کاٹھیاوار کے جنوب میں دیو ہیڈ سے30 سمندری میل کے فاصلے پر انجام کو پہنچا۔
آپریشن روم اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا ۔ تاریخ رقم ہو چکی تھی جس کا سہرا کمانڈر احمد تسنیم اور اُن کی ٹیم کے سر تھا ۔ دشمن کو واضح پیغام دیا جا چکا تھا کہ محمود غزنوی ،محمد بن قاسم ، صلاح الدین ایوبی اور بدروحنین کے شہسواروں کے جانشین ارضِ وطن کی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کے تحفظ کی خاطر سر کریک سے جیونی کے ساحلوں تک، سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں میں،لق ودق صحراؤں میں،برف پوش پہاڑوں پر۔ خلاؤں کی بیکراں وسعتوں میں اور گلیشئرز کی یخ بستہ ہواؤں کے دوش پر، چاک و چوبندہمہ وقت جان ہتھیلی پررکھے وطن کا قرض چکانے کے لیے کھڑے ہیں۔
اسی دوران کرپان ڈیبتھ چارج فائر کرتا ہوا آگے بڑھا ہنگور نے تیسرا تارپیڈو کرپان پر فائر کر دیا جس نے اُسے بری طرح نقصان پہنچایا ۔ بھارتی بحریہ کی نیندیں حرام ہو چکی تھی۹ دسمبر کی رات ہنگور کا شکار کرنے کے لیے بھارتی بحریہ نے آپریشن فالکن ترتیب دیا جس میں آبدوز شکن جہاز، ہیلی کاپٹراور ہوائی جہازوں کے اسکواڈرن شامل تھے تاہم ان کا یہ آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔ہنگور کے اس آپریشن کے دور رس نتائج برآمد ہوئے بھارتی بحریہ کو کرا چی پر میزائل حملے سے متعلق اپنا اہم آپریشن منسوخ کرنا پڑاکیونکہ بھارتی بحریہ چار دن تک ہنگور کو تلاش کرنے اورککری کی باقیات سمیٹنے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ہنگور جنگ بندی کے بعد خیریت کے ساتھ کراچی پہنچ گئی۔ ہنگور کا یہ اقدام پاک بحریہ کی متاثر کن جنگی حکمتِ عملی کا آئینہ دار تھاجسے مختلف حوالوں سے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
گراں قدر خدمات کے صلے میں ہنگور کے عملے کو 4 ستارہء جرأت 6 تمغۂ جرأت اور 14 امتیازی اسناد سے نوازا گیا۔ ہر سال ۹ دسمبر کو ہنگور کے غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہنگور ڈے منایا جاتا ہے اور پاک بحریہ کے آفیسرز اور جوان تجدیدِ عہد کرتے ہیں۔
تحریر: افتخار احمد خانزادہ