میسجز میں ایموجیز کا استعمال 2010 سے ہوا اور اب یہ میسجز کا اہم جُز بن چکے ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ان کے بغیر میسجز ادھورے لگتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
ایموجیز سے پہلے ایموٹیکونز استعمال کئے جاتے تھے جن کو پنچوایشن مارکس سے بنایا جاتا تھا۔ ان کے ذریعے لوگ اپنے موڈ کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کرتے تھے۔ 1881 میں ایموٹیکونز کو پُک میگزین کے ذریعےپہلی بار سامنے آئے، اس میگزین میں 4 قسم کے چہرے شائع ہوئے۔خوشی والا چہرہ، اداسی والاچہرہ، بے حسی والا چہرہ اور حیرت والا چہرہ، ان چہروں کو ٹائپو گرافیکل آرٹ کا نام دیا گیا۔
ایموٹیکونز کا آن لائن استعمال 1982 میں کیا گیا۔ چونکہ میسج پر لوگ اپنی بات دوسروں کو سمجھانے میں ناکام ہوجاتے تھے اس لئےاپنی بات کو واضح کرنے کےلئے لوگ ایموٹیکونز کا سہارا لینے لگے۔
ایموٹیکونز کے بعد1998 میں جاپانی فون کمپنی نے ایموجیز متعارف کروائے جوکہ اب میسج کا اہم ترین حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ لوگ کچھ لکھے بغیر صرف آئی کون میں بات کریں جس کے نتیجے میں انہوں نے 176 آئی کون متعارف کروائے جن کو ایموجی کا نام دیا گیا۔
ایموجی جاپانی زبان کا لفظ ہے جس میں ‘ای ‘کا مطلب تصویر اور ‘موجی’ کا مطلب کردار ہے۔آج کے دور میں لوگ میسج پر کچھ بھی لکھے بغیر صرف ایموجی سے ہی بات کرلیتے ہیں یا اپنے موڈ کو بیان کرنے کےلئے ایموجی کا سہارا لیتے ہیں۔