سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک وزارت داخلہ کو منتقلی پر حکومت سے جواب مانگ لیا

سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک وزارت داخلہ کو منتقلی پر حکومت سے جواب مانگ لیا

اسلام آباد :سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک وزارت داخلہ کو منتقلی پر حکومت سے جواب مانگ لیا،عدالت نے مارگلہ ہلز پر قائم ہاوسنگ سکیم منصوبے پائن سٹی کی تفصیلات بھی طلب کرلی.

چئیر پرسن وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ رینا سعید کی برطرفی اور مارگلہ ہلز پر قائم ریسٹورنٹس ختم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی.   چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی پر شدید برہمی کا اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ ہم مارگلہ سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کرائیں گے.

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سیکرٹری کابینہ کامران افضل کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا. شہباز شریف صاحب کہیں تو سمجھ آتی ہے. سیکرٹری کابینہ نے کہا نیشنل پارک وزارت داخلہ کو دینے کی سمری میں نے نہیں بھیجی بلکہ وزیراعظم نے خود حکم جاری کیا تھا جو مجھ تک پہنچا.

چیف جسٹس نے کہا آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کی خلاف ہے؟ وزیراعظم کا اختیار نہیں کہ کچھ بھی کر دیں، رولز بیوروکریٹس نے ہی بتانے ہوتے ہیں. چیف جسٹس نے استفسار کیا وزارتِ داخلہ کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کیوں دی گئی. یہاں ایک سماعت میں میجر جنرل آئے تھے جو خود ہی چلے گئے تھے اس میجر جنرل کا نام بتائیں جو بھاگ گئے تھے. یہ میجر جنرل پہلے تو عدالت سے فائلیں چھپا رہے تھے ملک کا تماشہ بنا دیا گیا ہے.

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ نیشنل پارک موسمیاتی تبدیلی سے لے کر وزارت داخلہ کو دینا کیا اچھی طرز حکمرانی ہے. ہم  عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کا احترام کرتے ہیں. عوامی ووٹوں سے منتخب لوگ ووٹ لے کر آتے ہیں اور پھر انہی پر چڑھائی کر دی جاتی ہے.

چیف جسٹس نے  اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا پارلیمنٹ کے باہر سے لے کر میرے گھر تک پائین سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ کے بینر لگے ہوئے ہیں. بینرز پر منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے سپانسرڈ لکھا ہوا ہے. بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے ٹیک اوور کر رکھا ہے آپ کو علم ہی نہیں ہے چیزیں کیسے چل رہی ہیں. بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں. یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں بنایا تھا. توہین عدالت کی درخواست نہ آتی تو سب کچھ خاموشی سے ہو جانا تھا ملک ایسے نہیں چلے گا. 


چیف جسٹس پاکستان نے سیکرٹری کابینہ کو مخاطب کر کے ریمارکس دئے ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئی ہیں، کیا وزیراعظم کل کسی کو گولی مارنے کا حکم دے تو گولی مار دیں گے؟ محکمہ وائلڈ لائف کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت لے کر جنگلات یا کسی دوسری متعلقہ وزارت کے حوالے کرتے تو بات سمجھ بھی آتی ہے. اٹارنی جنرل نے کہا کابینہ کے فیصلے کے بعد آپ کو چیمبر میں تفصیلات سے آگاہ کر دونگا.

چیف جسٹس نے جواب دیا ہم چیمبر میں کچھ نہیں کرتے جو بھی ہوتا ہے کھلی عدالت میں ہوتا ہے.آپ ہمیں کھلی عدالت میں ہی تمام تفصیلات پیش کریں گے. وزارت داخلہ اگر اتنی ہی اچھی ہے تو صحت، تعلیم اور قانون سمیت ساری وزارتیں انہیں دے دیں. اٹارنی جنرل کی رینا سعید کی برطرفی اور نیشنل پارک کی منتقلی کا معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی یقین دہانی کرا دی.

بعد ازاں  عدالت نے سماعت 15 اگست تک ملتوی کر دی۔

مصنف کے بارے میں