اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں وکیل قتل کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین کو گرفتار نہ کرنے کا حکم برقرار رکھا ہے۔سماعت کے دوران وکیل اور ججز کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
کوئٹہ میں وکیل عبدالرزاق شر قتل کے مقدمے میں نامزد چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت شکایت کنندہ کے وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے بینچ کے 2 اراکین پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بینچ کے رکن جسٹس مظاہر نقوی نے غلام محمود ڈوگر کیس میں انتخابات پر ازخود نوٹس لیا۔ بینچ کے رکن جسٹس حسن اظہر رضوی جونیئر جج کے طور پر تعینات ہوئے۔
امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا ہے، ایک ہمارے مقدمے کو میرٹ پر نہیں سنا جا رہا۔ الزامات لگانے پر سپریم کورٹ کے ججز وکیل امان اللّٰہ کنرانی پر شدید برہم ہو گئے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے براہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ ججز کی کردار کشی کیسے کر سکتے ہیں؟ میرے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کون سا کیس زیر التوا ہے؟ ثبوت دیں، وکیل صاحب بغیر ثبوت محض الزامات کیسے لگا رہے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کو اجازت کس نے دی ہے کہ اس طرح سے ہمارے بارے میں بات کریں؟ آپ کو آج ججز پر الزماات لگانے کے لیے خصوصی ذمے داری دے کر بھیجا گیا ہے۔
وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ ایک وکیل اسداللّٰہ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں جج پر اعتراض کیا تو فل کورٹ بنا دیا گیا تھا، مجھے بولنے کو مت کہیں ورنہ میرے پاس بہت کچھ ہے کہنے کو۔ وکیل امان اللّٰہ کنرانی نشست پر بیٹھنے لگے تو بینچ نے روک دیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل امان اللّٰہ کنرانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سامنے آئیں، اگر آپ کو ججز پر کوئی اعتراض تھا تو تحریری طور پر جمع کرانا چاہیے تھا، آپ کو روسٹرم پر آکر ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس یحییٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کہیں جو الزامات لگائے ان کا ثبوت دیں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس کریں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ نے جو الزامات لگائے اس کا جواب دینا ہو گا، ہم کمزور نہیں ہیں۔
وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ جج صاحب آپ چلائیں مت، میں آپ کا غلام نہیں ہوں، عام شہری ہوں اور رائے کی آزادی حاصل ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ہم غلام ہیں؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ فوری طور پر غیرمشروط معافی مانگیں۔
وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کمرۂ عدالت میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی اور کہا کہ آپ تو بڑے ہیں، میں معافی مانگ لیتا ہوں، آپ جج بنیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر پارٹی بنیں گے تو میں بولوں گا، پارٹی بننا ہے تو آپ کرسی سے نیچے آجائیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ تحریری طور پر معافی نامہ جمع کرائیں۔
وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ تحریری معافی نامے کی کیا ضرورت ہے؟ میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں، میری تو بس اتنی استدعا ہے کہ میرا کیس میرٹ پر سنا جائے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کہ کیا آپ معافی قبول کر رہے ہیں؟
جسٹس حسن اظہر رضوی جواب دیا کہ معافی اس شرط پر قبول کر رہا ہوں کہ یہ الزامات واپس لیں، ہم نے 35 سال اس شعبے میں عزت سے کام کیا ہے،۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس مظاہر نقوی سے سوال کیا کہ کیا آپ معافی قبول کر رہے ہیں؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جواب دیا کہ ایبسولوٹلی ناٹ۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم کو توشہ خانہ کیس میں گرفتار کر لیا گیا، سپریم کورٹ نے 2 بار کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ ابھی فیصلہ نہیں کر سکتی، حالات یہ ہیں ایف آئی اے وکلاء کو طلب کر کے گرفتار کر رہا ہے۔
جسٹس یحییٰ نے کہا کہ دوسرے کیس کی بات نہ کریں، صرف کوئٹہ وکیل قتل کیس ہمارے سامنے ہے، اسی پر دلائل دیں۔ وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے کہا کہ جے آئی ٹی تفتیش کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کو طلب کرتی رہی وہ پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اب تو چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں، جس ریاست نے گرفتار کیا ہے اسی کی بنائی جے آئی ٹی کے سامنے ملزم کو پیش کر دیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم جے آئی ٹی کو ہی نہیں مانتے، جے آئی ٹی کیسے تفتیش کر سکتی ہے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل مدعی مقدمہ امان اللّٰہ کنرانی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سامنے آئیں ایف آئی آر پڑھیں۔ وکیل امان اللّٰہ کنرانی نے جواب دیا کہ مجھے سامنے نہ لائیں ورنہ مشکل ہو گا۔
سپریم کورٹ نے سماعت 24 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وکیل قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار نہ کرنے کا حکم برقرار رہے گا۔