کراچی: وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی ماہ اگست کے اختتام سے پہلے بحالی سے میکرو اقتصادی استحکام آنے والا ہے کیونکہ تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں ،ادائیگیوں کا توازن اب کنٹرول میں ہے،ہائیڈل پاور میں اضافے، کم توانائی کی طلب اور تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے پاکستان کا آنے والے مہینوں میں ادائیگیوں کا توازن سرپلس بھی کر سکتا ہے۔
پی ایس ایکس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پی ایس ایکس کی اعلی انتظامیہ اور کیپٹل مارکیٹ کے دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کے زیر انتظام وفاقی وزیر برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے ساتھ ہونے والے ملاقات میں چیئرپرسن پی ایس ایکس ڈاکٹر شمشاد اختر،چیئرمین ایس ای سی پی عامر خان، ایم ڈی اور سی ای او پی ایس ایکس فرخ ایچ خان،چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد،ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین، اسپیشل سیکرٹری فنانس اویس منظور اور کلیدی اسٹیک ہولڈرز بشمول چیئرمین عارف حبیب گروپ عارف حبیب،چیئرمین پاکستان اسٹاک بروکرز ایسوسی ایشن (پی ایس بی اے) و اے کے ڈی گروپ عقیل کریم ڈھیدھی،سی ای او بینک الفلاح لمیٹڈ عاطف باجوہ،سی ای او این بی پی فنڈزڈاکٹر امجد وحید،ڈائریکٹر عارف حبیب کارپوریشن نسیم بیگ اور سی ای او پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) احسان ملک نے شرکت کی۔
اجلاس میں کیپیٹل مارکیٹ کی پائیدار ترقی کے لیے پی ایس ایکس کی جانب سے وزیر خزانہ کو پیش کی گئی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایم ڈی پی ایس ایکس نے وزیر خزانہ اور دیگر شرکاء کا خیرمقدم کیا اور اس فالو اپ میٹنگ میں ان کی موجودگی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ایم ڈی پی ایس ایکس نے اس ضرورت پر زور دیا کہ کیپٹل مارکیٹس کی صورتحال کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔اجلاس میں جن اہم نکات پر توجہ دی گئی ان میں پاکستان کی میکرو اکانومی، کیپٹل مارکیٹ، ٹیکسیشن اور نان ٹیکس اقدامات سے متعلق امور شامل تھے۔
ملک میں موجودہ میکرو اکنامک صورتحال کے حوالے سے شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی مالی اعانت مضبوط ہونی چاہیے اور ٹیکس لگانے کے اقدامات مساوی ہونے چاہئیں۔ امریکی ڈالر اور پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ میں حرکت بہت زیادہ غیر مستحکم رہی ہے اور اس میں تبدیلیاں بتدریج ہونی چاہئیں۔ شرح سود کے حوالے سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں شرح سود منفی ہے اور پاکستان میں شرح سود کے تناظر میں اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالیاتی نظم و ضبط کی سختی سے پیروی کی جائے گی اور تمام اضافی اخراجات کو ٹیکس کے اقدامات سے مکمل طور پر فنڈ کیا جائے گا۔ 10 فیصد سپر ٹیکس صرف ایک سال کے لیے لگایا گیا ہے جبکہ متبادل آمدنی کے ذرائع تلاش کیے گئے ہیں۔
بینکوں پر اے ڈی آر سے منسلک ٹیکس سابقہ طور پر نہیں لگایا جائے گا اور ریٹیل شعبے سے ٹیکس ریونیو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہونے کی امید ہے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے زیر بحث آنے والے تمام نکات کے بعد ایف بی آر سے کہا کہ وہ فوری طور پر سی جی ٹی کے نظام اور نئی لسٹڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کریڈٹ کے معاملے میں کسی بھی تضاد کا جائزہ لے۔ انہوں نے ایس ایس سی پی سے کہا کہ وہ سہولت اکاؤنٹس کے لیے سرمایہ کاری کی حد اور اے ایم ایل کی ضروریات کا جائزہ لے۔ انہوں نے وزارت خزانہ کو ڈویلپمنٹ مالیاتی اداروں کی فہرست سازی، کیپٹل مارکیٹوں میں قرض، سکوک کے اجراء کے طریقہ کار اور قومی بچت اسکیموں کی شرح سود کی ترتیب کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی۔
مندرجہ بالا تمام معاملات کا مکمل جائزہ لینے کے لیے وزیر خزانہ نے تین کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پہلی کمیٹی اسٹیٹ بینک اور ایم پی سی کے ساتھ شرح سود پر نجی شعبے کے نقطہ نظر کو شیئر کرنے کے لیے قائم کی گئی ، دوسری کمیٹی پی بی سی اور پی ایس ایکس کے ساتھ تمام ٹیکس ایشوز پر ہم آہنگی کے لیے قائم کی گئی اور تیسری کمیٹی ڈویلپمنٹ مالیاتی اداروں کی فہرست سازی، قرض اور سکوک کے اجراء، قومی بچت اسکیموں میں اصلاحات اور ایکسچینج ریٹ فارورڈ ڈیلنگ کے لیے قائم کی گئی کہ مارکیٹ کی ترقی کا جائزہ لیں جس تک مارکیٹ کے تمام شرکاء رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلی کمیٹی میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین، پی ایس ایکس اور پی بی سی کے نمائندوں کے ساتھ رابطہ کریں گے۔
دوسری کمیٹی میں ممبر ٹیکس پالیسی آفاق قریشی تمام ٹیکس ایشوز پر پی بی سی اور پی ایس ایکس کے ساتھ رابطہ کریں گے جبکہ تیسری کمیٹی میں اسپیشل سیکریٹری فنانس اویس منظور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے نسیم بیگ کے ساتھ کورابطہ کریں گے۔وزیر خزانہ نے مزید پیش رفت کا جائزہ لینے اور اسٹیک ہولڈرز سے دو ہفتوں کے اندر دوبارہ ملاقات کے عزم کا اظہار کیا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے پی ایس ایکس نے مثبت اور تعمیری بات چیت پر وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دو ہفتوں میں ٹھوس اقدامات کو عملی جامہ پہنانے پر اعتماد کا اظہار کیا۔