تاریخ اسلام کے نئے سال کا یہ آغاز اپنے ساتھ محض ایک پیغام ہی نہیں لاتا بلکہ اپنے دامن میں دو شاندار تاریخی کردار بھی بطور اسوہ حسنہ گواہی اور رہنما کے لیے لاکر پیش کرتا ہے۔ پہلا تاریخی کردار ہجرت کا واقعہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور میں ایام محرم میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب دین اسلام کی راہ میں یہ صورتِ حال پیدا ہوئی کہ اس کے علمبردار کفر کے آگے یا تو سپر ڈال دیں نہیں تو ان کی جانیں ان کی ناکام تمناؤں کے ساتھ ہی ختم کر دی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ نے ختم المرسلینؐ کے ذریعہ اپنے فدا کاروں کو یہ حکم دیا کہ اب تم سر زمین حرم سے گوشہ طیبہ کی طرف ہجرت کر جاؤ جس کا معنی یہ تھا کہ اپنے گھر وطن مال ومتاع، آل اولاد، عزیز و اقارب اور خاک وطن کی جملہ مرغوبات کو خدا کی راہ میں تج دو۔ چنانچہ خود ہادی برحق جناب خاتم المرسلین ؐ کے جملہ جاں نثاران مکہ سے ہجرت کر گئے، گھر، اہل و عیال خویش و اقارب الغرض وطن کی ہر متاع عزیز اور ماحول کی ساری وابستگیوں کو رضائے الٰہی کے لیے خیر باد کہہ کر مدینہ طیبہ میں اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سکونت پذیر ہو گئے اور بالآخر ان کی مسلسل قربانیاں پروان چڑھیں اور مدینہ طیبہ میں وہ تنظیم وجود میں آئی جس نے بتدریج ملک کے معاملات کی تمام اقدار سنبھالیں اور چند سال کے اندر تمام خطہ عرب کی کایا پلٹ کر اسلام کے سچے اصولوں کی بنیاد پر اسلامی حکومت قائم کر کے ایک ایسا ماحول تیار کر دیا جس سے ظلم اور فتنہ و فساد کے تمام دروازے بند ہو گئے۔
دوسرا تاریخی کردار جس کی یاد یہ ماہ محرم اپنے ساتھ لاتا ہے وہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کا اسوہ حسنہ ہے وہی اسلامی نظام جس کی بنیاد نبی آخر الزمانؐ نے ہجرت کے اسوہ حسنہ سے رکھی اور جس کو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر عمر بھر میں پروان چڑھا کر تکمیلی صورت میں بطور امانت امت کے سپرد کیا
تھا۔ اس میں انحطاط کا آغاز جب ایک بنیادی تبدیلی سے ہونے لگتا ہے یعنی جب جمہوری خلافت کی جگہ خاندانی، شخصی اور موروثی بادشاہت لے لیتی ہے اور یزید اسلامی طریق کے خلاف منتخب ہو جاتا ہے اور اس طرح اسلامی دستور کے ایک اہم اصول (اصول استصوات و شورائیت و خلافت) کو توڑ دیا جاتا ہے تو آپ اس تبدیلی کو برداشت نہیں کر سکتے بلکہ یہ راز الم نشرح کر دیتے ہیں کہ نظام اسلامی کے ایک ایک ضابطہ کی حفاظت ہر مسلمان پر اپنی جان سے زیادہ عزیز اور ضروری ہے۔ اسلامی نظام اگر قائم نہ ہو تو اس کے قیام کی سبیل بھی یہی ہے کہ اسوہ ہجرت وجہاد کی پیروی کرتے ہوئے اس کے لیے ہر نوع کی قربانی دی جائے اور اگر قائم ہو کر روبہ زوال ہونے لگے تو اس کو استحکام بخشنے کی راہ بھی صرف ایک ہی ہے یعنی اسوہ شہادت کی پیروی: یزید کی حکومت بہرحال ایک مسلمانوں ہی کی حکومت تھی وہ خود نہ صرف کلمہ گو تھا بلکہ اس کے ہاتھ پر وقت کے اکثر عمائدین نے بیعت کر لی تھی چنانچہ اس نے امیر المومنین کے منصب و خطاب پر قاہرانہ قبضہ کر لیا تھا اس کا ملک بھی تمام تر مسلمانوں ہی کا ملک تھا۔
یزید نے تمام مسلمانوں سے اپنے وفاداری کا حلف لینا ضروری سمجھا مگر حضرت امام حسینؓ کی بروقت شہادت نے اس کے فریب کا پردہ چاک کر دیا اور واضح کر دیا کہ درحقیقت ایک ’’اسلامی نظام حکومت‘‘ وہی ہوتا ہے جس کا ڈھانچہ تمام خالص اسلامی اصولوں پر قائم ہو۔ مسلمان اسلام کے کسی ایک اصول کو بھی ٹوٹتا ہوا کبھی بخوشی گوارا نہیں کر سکتا اور اگر اس کی زندگی میں کوئی ایسا وقت آ جاتا ہے کہ اس کے سامنے اسلام کے کسی اصول کو توڑا جاتا ہے تو وہ اس کی بحالی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ اس قربانی کو وہ اپنا فریضہ اور سعادت سمجھتا ہے۔
حکومت میں صرف ایک خرابی پیدا ہوئی تو حضرت امام حسینؓ نے اس کی اصلاح کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ آپؓ کو مجبور کیا گیا کہ آپؓ یزید کے جبری و غیر اسلامی انتخاب کو تسلیم کر لیں لیکن آپؓ نے صاف انکار کر دیا کہ میں ایک ایسے شخص کی اطاعت نہیں کر سکتا جس کا انتخاب اسلامی نقطہ نظر سے اصولاً غلط ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور اُن کے جانثاروں نے اپنی جان قربان کر دی لیکن یزید کی بیعت نہیں کی۔ آپؓ نے ثابت کر دیا کہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔ آپؓ کو آپؓ کے کنبہ کے تقریباً بہتر اہم رضاکاروں سمیت میدان کر بلا کی چلچلاتی ریت پر دریائے فرات کے پانیوں کی فراوانیوں کے درمیان تشنہ لب شہید کر دیا گیا۔ یہ شہادت بے نظیر و عظیم قربانی ہے۔