اسلام آباد: وزرات ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کو بتایا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں میں بحالی فنڈز فوج کے ذریعے استعمال کیے جا رہے ہیں جس کے اچھے رزلٹ آئے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کا سینیٹر ہدایت اللہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری سیفران نے بتایا کہ پاکستان مزید افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا، مسئلہ کا حل یہ ہے کہ افغانستان کے اندر خانہ جنگی کو روکنے کیلئے بین الاقوامی برادری کردار ادا کرے تاکہ پناہ گزین دوسرے ممالک کا رخ نہ کریں۔ سیفران حکام نے بتایا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں میں بحالی فنڈز فوج کے ذریعے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اس پر سینیٹر بہرمند خان تنگی نے کہا کہ آپ فوج کو بحالی فنڈز کیوں دے رہے ہیں؟ اس پر سیفران حکام نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں وزیر اعظم اور گورنر آئے جنھیں بحالی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، وزیر اعظم بہت برہم ہوئے اور گورنر اقبال ظفر جھگڑا کو کہا کہ بہت کم فنڈز استعمال ہو رہے ہیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ پھر آرمی سے درخواست کی گئی کہ آپ کے ذریعے فنڈز استعمال کیے جائیں اور آرمی کے ذریعے فنڈز استعمال کرنے کے اچھے نتائج آئے۔
ثانیہ نشتر نے کہا کہ ضم شدہ قبائلی علاقوں کیلئے 2020/21 میں 121 ارب روپے فنڈ دیا گیا، آپ ہمیں اس رقم کا استعمال بتا دیں۔ سیفران حکام نے بتایا کہ سال 2019/20 میں ہمیں اے آئی پی کی مد میں 59 ارب میں سے 24 ارب دیے گیے، گزشتہ سال میں ہمیں 49 میں سے 24 ارب روپے ملے۔
اس موقع پر سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کہ اتنے پیسے ملنے کے باوجود ہمیں ترقیاتی کام نظر کیوں نہیں آ رہا؟ حکومت سے اگر این ایف سی کا تین فیصد ملتا ہے تو کیا آپ اسے خرچ کر پائیں گے۔ سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ سب کو ساڑھے تین سال سے ضم شدہ قبائلی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ ہوگیا ہوگا، اس سے تو ایف سی آر اور ملک کا نظام ہی بہتر تھا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کیلئے ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات اور سیکرٹریٹ قائم کیا جائے۔