بیوروکریسی کو پھانسی دے دیں

Mohsin Goraya, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انکی ترقی و کامرانی اور خوشحالی میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہے، ان ممالک میں بیوروکریسی ریاست کی ملازم ہوتی ہے حکومت وقت کی چاکر نہیں،ان ممالک میں بیوروکریسی کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور حکمران طبقہ کو آئین اور قانون کا تابع رکھنا بھی ہوتا ہے،بیوروکریسی کو ان ممالک میں ورکنگ گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے،قانون سازی میں بھی ان کی شمولیت ہے،حکومت جب کوئی قانون بناتی ہے تو بیوروکریسی اس کا جائزہ لیکر بتاتی ہے کہ یہ آئین و دستور کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں پھر اس کوآئین کے تابع بنانے کیلئے مشورے بھی دیتی ہے۔
ان ممالک میں سرکاری ملازم خود کو ریاستی ملازم تصور کرتا اور اورآئین و قانون کو جواب دہ ہوتا ہے نہ کہ حکومت وقت کو،عوام کو ریلیف دینے،انصاف کی فراہمی، صنعت کے قیام،مصنوعات کی قیمتوں کا تعین،مقررہ قیمتوں پر اشیاء کی خرید و فروخت،مہنگائی کنٹرول کرنا،نظم و نسق کا قیام،امن و امان کی بحالی یہ سب بیوروکریسی کے کام ہیں اور کوئی حکمران ان کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا،زبانی احکامات کی گنجائش ہی نہیں،سفارش،اقرباء پروری،مالی،سیاسی رشوت کا ان معاشروں میں تصور نہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور کو بھی کٹہرے میں آنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی،رچرڈ نکسن، صدر تھے مگر واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آکر گھر چلے گئے،کلنٹن کو اپنی سیکرٹری سے تعلقات بنانے کی کوشش میں بھگتنا پڑا،کچھ عرصہ قبل ایک امریکی صدر کو پہلے دور حکمرانی کے دوران مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور پھر عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ دوسری بار منتخب ایوان کے کٹہرے میں پیش ہوئے،مگر ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں بیوروکریسی کو اکثر معاملات میں خاموش تماشائی بننا پڑتا ہے۔کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرأت کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ 
 کسی بھی ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، ریاست انہی ستونوں کی بنیاد پر قائم رہتی اور نظم ریاست کو چلاتی ہے،مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ کے ستونوں پر ہی ریاست کا وجود مستحکم انداز سے دائم رہتا ہے،اہم ترین بات ان تینوں اداروں یا ستونوں میں توازن قائم رکھنا ہے،ایک ادارہ کی دوسرے میں مداخلت روکنا بھی اہم ترین ہے،تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں خود مختار اور آزاد ہوں اور بلا امتیاز قوانین کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں ریاست ترقی کی منازل طے کرتے استحکام حاصل کر لے اور عوام کو فوری ریلیف ملنا شروع ہو جائے،مسائل بھی دہلیز پر حل ہوں،امن اور تحفظ بھی میسر ہو اور انصاف بھی فی الفور ملے۔ہمارے ہاں مگر باوا آدم ہی نرالا ہے،تجربے پر تجربہ کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا،ایک دوسرے کے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی برتری اور بالا دستی قائم کرنا اور ایک دوجے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہم نے شیوہ بنا لیا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج71سال بعد بھی ہم دوراہے بلکہ چوراہے پر کھڑے ہیں۔
پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دنوں ارکان استحقاق بل منظورکیا، توثیق کیلئے گورنر کو بھجوایا مگر گورنر نے اسے آئین سے ماوراقراردے کر واپس بھیج دیا تا ہم یہ گورنر کی رائے تھی اس کے باوجودقانون منظور ہو گیا،دلچسپ بات یہ کہ استحقاق بل کو پیش کرنے اور منظوری میں حکومت اوراپوزیشن متحد اورایک پلیٹ فارم پردکھائی دی۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس کے ارکان عوامی مفاد میں کسی بل کی منظوری پر کبھی یکجا نہیں ہوئے،استحقاق بل دراصل بیوروکریسی خاص طورپر انتظامیہ اور پولیس کو ارکان اسمبلی کا ذاتی ملازم بنانے کی ایک دانستہ کوشش ہے،بل کی مضحکہ خیز بات اسمبلی کو عدالتی اختیارات دینا ہے،کسی رکن اسمبلی کی بات نہ ماننے پر اسے اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی قید اور جرمانہ کر سکے گی،یعنی عدالت کے متوازی عدالت،کسی جرم کو ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک قانونی نظام ہے،مجرم کو عدالت پیش کر کے فردجرم عائد کی جاتی ہے جس کے بعدعدالت شہادتوں اوردلائل پرفیصلہ دیتی ہے،مگر حالیہ بل کی منظوری کے بعد بیوروکریسی مکمل طورپر اسمبلی ارکان کے رحم و کرم پر ہو گی،اپیل کابھی حق نہیں دیا گیا،مدعی بھی خود منصف بھی خود،دنیا بھر کے پارلیمانی اورجمہوری ممالک میں ایسے قانون کی کو ئی نظیر نہیں ملتی۔
 کئی دہائیوں سے بیوروکریسی کو گالی بنا دیا گیا ہے،حکومت فوجی ہویا جمہوری، بیوروکریسی ہمیشہ زیرعتاب رہی،ایسا نہیں کہ بیورو کریسی میں سب دودھ کے دھلے ہیں،کالی بھیڑیں یہاں بھی موجود ہیں مگرسب کوایک ہی لاٹھی سے ہانکناانصاف کے منافی ہی نہیں انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،قانون سازی کرنے والے بتائیں کہ کونسا ملکی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ منتخب ارکان اسمبلی کی ہر جائز ناجائز بات پر سر تسلیم خم کرنا بیوروکریسی پر فرض عین ہے،اگر بیوروکریسی میں کچھ افسران کام نہیں کرتے تو ارکان اسمبلی میں بھی کچھ نا پسندیدہ عناصر ہیں،حالیہ بل کے بعد ارکان اسمبلی باقاعدہ طور پرشہنشاہ معظم بن جائیں گے اور بیوروکریسی ان کی خادم خاص،پھر قانون،قاعدے،ضابطے مو م کی ناک بن جائیں گے،جس کا جو جی چاہے گا زبانی حکم دے گا اگر حکم مانا گیا اور اس میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تو ذمہ داری بیوروکریسی کی اورنہ ماناجائے تو اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کی طرف سے دی جانے والی سزا کے حقداربھی بیوروکریٹ ہی ٹھہریں گے۔
 بیوروکریسی کے سر پر پہلے سے ہی نیب،ایف آئی اے،انٹی کرپشن کی تلواریں لٹک رہی ہیں جس کی وجہ سے گڈ گورننس عنقا ہے،اب پنجاب اسمبلی نے بھی ننگی تلوار بیوروکریسی کی گردن پررکھ دی،قانون سازی اسمبلی کا حق ہے مگر انصاف لازمی تقاضا،اگراس قانون میں یہ دفعہ بھی شامل کر لی جاتی کہ اگر کوئی رکن اسمبلی کسی بیوروکریٹ کو غیر قانونی یا قاعدے ضابطے سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کیلئے دباؤ ڈالے گا تو وہ بھی پکڑ میں آئے گااوراس کیلئے بھی سزا تجویز کی جاتی تو یہ قرین انصاف ہوتا مگر یہاں تو بالکل یکطرفہ قانون بنا دیا گیا،جس میں چٹ بھی میری، پٹ بھی میری،ایسی صورت میں جبکہ وزیراعظم بیوروکریسی کو واضح ہدایت دے چکے ہیں کہ بیوروکریسی بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دے کسی کے دباؤ میں آئے نہ کسی کے خلاف ضابطہ حکم کو تسلیم کیا جائے،مگر پنجاب اسمبلی نے ارکان اسمبلی کو یہ آئینی اختیار دیدیا کہ وہ بیوروکریسی کو کوئی بھی کام کرنیکا حکم دے سکتے ہیں اورسرکاری افسر کے پاس انکار کی گنجائش بھی نہیں۔
 منتخب نمائندوں کا استحقاق اہم لیکن سرکاری افسروں اور بیو رو کریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا،یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاستی ملازمین جنہوں نے ریاست سے وفاداری اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے ان کو ارکان کے حکم کا پابند کر کے انکا ذاتی ملازم بنا دیا جائے،چیف جسٹس آف پاکستان نے اگر اس معاملے کا نوٹس نہیں لینا تو پھر بہتر ہے کہ بیوروکریسی کو پھانسی ہی دے دیں، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔