تین سال گزر گئے، ہم ابھی تک جنگلوں صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں، ریگزاروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ فلاحی ریاست کا سنگ بنیاد دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ دیکھنے کی اس امید لیے کتنے ہی لوگ جہان فانی سے کوچ کر گئے جو کرونا سے بچ گئے ان کا جینا مشکل، مہنگائی کا وائرس مارے دیتا ہے، اس کی تو کوئی ویکسی نیشن بھی اب تک منظر عام پر نہ آ سکی۔ تین سال میں صرف تقریریں، اجلاس، تقرریاں، تبادلے، استعفا، جو چھتری تلے آ گیا وہ فرشتہ جس نے استعفا دیا وہ شیطان الرجیم، اپنے ادھر ادھر ہوئے انہیں کھلا چیلنج الیکشن لڑ کے دیکھو ضمانت ضبط ہو جائے گی۔ سانپ سیڑھی کا کھیل جاری سب کو ایک ہی ہدایت اپوزیشن کا سر کچل دو۔ جہانگیر ترین گروپ علیحدگی کے لیے پر تولنے لگا۔ استعفے دینے کو تیار 33 ارکان ایک طرف۔ استعفے دے دیے تو حکومت سنبھالنی مشکل ہوگی۔ بڑی لے دے کے بعد مونس الٰہی کو ایک وزارت دے کر چودھریوں کا منہ بند کیا ہے۔ دوسرے اتحادی منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ”ہونے لگی ہیں نظم تیرے گھر کی سازشیں“ اپوزیشن آسان شکار، بزعم خود اس کا گھونٹ بھر لیا۔ گلا گھونٹ دیا۔ اتنا ٹف ٹائم دیا کہ وہ نڈھال ہوگئی۔ کہاں دو چار نیب زدہ اپوزیشن لیڈر اور کہاں 54 وزیر، مشیر، معاونین خصوصی اور ڈھیروں ترجمان، پورا لشکر حملہ آور ہوجائے تو کون مائی کا لال اس کے سامنے ٹھہرے گا۔ لندن میں جانے کس نے کس سے بات کی کہ ہوم ڈپارٹمنٹ نے نواز شریف کی ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد کردی۔ پاسپورٹ پہلے ہی منسوخ، سفری دستاویزات ندارد، کہاں جائیں گے۔ اپوزیشن لیڈروں کی باتوں سے بے اطمینانی جھلکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس بندے ہی کتنے ہیں، بیشتر تو کرونا میں مبتلا ہو کر گھروں میں بند ہوگئے ٹوئٹس پر گزارا، مولانا فضل الرحمان کبھی کبھار آنکھیں کھول کر ایک آدھ دھمکی دے دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا جلسہ تاریخی ہوگا حکومت کو لے ڈوبے گا۔ جلسہ ہوا نہ حکومت ڈوبی، صنم بے وفا خود ڈوب گئے۔ دو چار نیب کی گھرکیوں سے خوفزدہ، خواجہ آصف ضمانت کے بعد سے غائب۔ ”نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں“ سعد رفیق اور رانا تنویر آنے والے نوٹسوں سے خوفزدہ، اپوزیشن بے اثر حکومت کی فتوحات میں اضافہ، وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر ہر طرف تبدیلی سرکار کا راج، اب سندھ پر نظریں جمی ہیں۔ سندھ قابو میں نہیں آرہا۔ کرپشن کا جادو یہاں نہیں چل پایا۔ پیپلز پارٹی نے بریکر بنا رکھے ہیں۔ آزاد کشمیر میں اکیلا بچہ بلاول گیارہ بارہ سیٹیں لے گیا۔ خم ٹھونک کر سامنے کھڑا رہا۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم کی زیر صدارت سندھ اسٹرٹیجی کمیٹی کے اجلاس میں صوبہ پر
قبضے کے لیے ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو ہٹانے کی تدبیریں گورنر راج کے شوشے، کہا گیا جس دن وزیر اعظم کے دورے شروع ہوگئے پی پی کے لیڈروں کو دورے پڑنے لگیں گے۔ مگر زمینی حقائق توقعات اور امکانات کے برعکس، سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ جب تک بھٹو”زندہ“ ہے پیپلز پارٹی سندھ میں قائم دائم رہے گی۔ سیاست کی دلچسپ صورتحال، ہر طرف ”سرپرائز“ کی توقعات لیکن آئندہ دو سال غیر یقینی، عوام کارکردگی سے نالاں، جس سے پوچھو پھٹ پڑتا ہے۔ 46 فیصد غیر مطمئن 34 فیصد مطمئن 52 فیصد مدت پوری کرنے کے حامی لیکن مہنگائی سے آبدیدہ،کارکردگی کے محاذ پر صرف اعتراف، احساس، ادراک، عزم صمیم، اعلانات، یقین دہانیاں اور کچھ نہیں، ہر وقت اس فکر میں غلطاں، کیا کریں کیا نہ کریں، اعتراف۔۔۔ کہ 80 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہیں زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں، یہ تعداد تبدیلی سرکار سے پہلے دس سے بارہ کروڑ تھی اب بڑھ کر سولہ سترہ کروڑ ہوگئی کیا کریں کیا نہ کریں، چار وزرائے خزانہ کی قابلیت کام نہیں آئی۔ غریبوں کی تعدداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان ہی سے خوف آتا ہے، آنا بھی چاہیے ”ذرا سا وقت گزر جائے غفلتوں میں اگر، تو اچھے اچھوں کو پھر ہاتھ ملنا پڑتا ہے۔“ اعتراف کے ساتھ احساس بھی ہے کہ غریب لوگ اور ان کے بچے نان شبینہ کو محتاج ہیں (غریبوں کے ساتھ بڑا پرابلم ہے کہ بچے بڑے پیدا کرتے ہیں آپا فردوس عاشق کو وفاق میں بہبود آبادی کا محکمہ اسی لیے دیا جا رہا ہے) غربت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ بینڈ باجے بجا کر جو لنگر خانے قائم کیے گئے تھے ان میں سے بیشتر پر ہیروئنچی مافیا قابض ہوگئی وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں انہیں بھی بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ انہیں بھی شکایت ہے کہ دن بھر چوری چکاری سے جو پیسے اکٹھے ہوتے ہیں کم بخت مہنگائی کی وجہ سے اتنے پیسوں میں ایک پڑیا نہیں آتی۔ کھانا کہاں سے کھائیں گے۔ لنگر خانے ان کی جائے پناہ، بقول احمد جاوید،”اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے۔ لنگر سے روٹی کھاتے ہیں پانی سبیل سے“ ادراک ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دیہاڑی دار یعنی ڈیلی ویجرز کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود شہر شہر لاک ڈاؤن، ہر طرف سناٹا، سڑکوں پر بیٹھے دیہاڑی داروں کو پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے۔ قرض لے کر پولیس سے جان چھڑاتے ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز بھی خیر سے مہنگے ہوگئے۔ تیل، گھی، چاول، آٹا، خشک دودھ، شیمپو، صابن، سرخ مرچ، لہسن، مصالحے اور چینی سبھی کے دام بڑھ گئے۔ کسی میں 10 روپے کسی میں 12 روپے اضافہ، گھی 22 روپے کلو مہنگا، مسور کی دال 22 روپے مہنگی، دکاندار سے مہنگائی کا شکوہ کریں تو وہ طنز کرتا ہے کہ ”کس منہ سے دال مانگ رہے ہو مسور کی۔“ بجٹ کے وقت مہنگائی 8 فیصد تھی ایک ماہ میں 12 سے 14 فیصدہوگئی کیا کریں کیا نہ کریں، اس کے باوجود صدر مملکت کا ارشاد عالی شان کہ کرونا کے باوجود ملک کی جی ڈی پی بڑھ گئی۔ اچھی بات ہے کرونا تو”نیک فال“ ثابت ہوا ناں۔ آبادی گھٹ گئی جی ڈی پی بڑھ گئی۔ کرونا دو سال اور رہا (اللہ نہ کرے) تو جی ڈی پی ترقی یافتہ ملکوں کے برابر ہوجائے گی۔ ادراک اور احساس کے ساتھ ساتھ روزانہ اعلانات کہ غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح لیکن”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں غریبوں کے سوا“ اولین ترجیحات میں سیکڑوں ہزاروں اندرونی بیرونی مسائل منہ کھولے سر اٹھائے کھڑے ہیں سب سے اولین ترجیح اپوزیشن سے نمٹنا ہے عوام کو باور کرانا ہے کہ ہم ہی نجات دہندہ ہیں مگر پنجاب بضدکہ”ایسا کہاں سے لائیں کہ اس سا کہیں جسے“ پلس مائنس سب دیکھ لیے کرپشن کم بخت کے ثبوت نہیں مل رہے ضمانتیں ہو رہی ہیں، ارادے نیک مگر عوام ارادوں سے زیادہ نیک، اجلاسوں اور تقریروں سے نتائج برآمد ہونے کے منتظر ہیں اور احساس ادراک اعتراف اور اعلانات کرنے والی سرکار سے کارکردگی کی آس امید لگائے بیٹھے جوں توں زندگی گزار رہے ہیں ”ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی“۔