امریکا: یہود مخالف سوشل میڈیا پوسٹس پر ویزے اور رہائشی اجازت نامے منسوخ کرنے کا اعلان
امریکی امیگریشن حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان افراد کو ویزے یا رہائشی اجازت نامے جاری نہیں کریں گے، جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر یہود مخالف مواد موجود ہو گا۔ یہ پالیسی فوری طور پر نافذ کر دی گئی ہے اور طلبہ ویزوں سمیت گرین کارڈ کی درخواستوں پر بھی لاگو ہوگی۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق، اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر ان گروہوں کی حمایت کرتا ہوا پایا گیا جنہیں امریکا دہشت گرد قرار دیتا ہے—جیسے حماس، حزب اللہ یا یمن کے حوثی—تو یہ اس کے خلاف منفی عنصر سمجھا جائے گا۔
حکام نے واضح کیا ہے کہ امریکا میں آزادی اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی غیر ملکی یہود دشمنی یا دہشت گردی کی حمایت کرے اور اس پر قانونی کارروائی نہ ہو۔ محکمے کی ترجمان کے مطابق، جو کوئی بھی اس خیال میں ہے کہ وہ امریکا آکر ایسی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے، وہ غلطی پر ہے۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے بھی تصدیق کی ہے کہ اب تک تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں، اور یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویزے دینا یا منسوخ کرنا عدالتوں کا نہیں بلکہ حکومت کا اختیار ہے۔
ادھر بعض متاثرہ افراد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کبھی یہود دشمنی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ صرف احتجاجی مظاہروں میں موجود تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کا کیس اس حوالے سے سب سے نمایاں ہے، جنہیں مستقل رہائشی ہونے کے باوجود امریکا سے بے دخل کر دیا گیا۔
اس پالیسی کے تحت امریکی حکومت نے چند بڑی یونیورسٹیوں کو وفاقی فنڈنگ سے بھی محروم کر دیا ہے، یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ انہوں نے کیمپس میں ہونے والے یہود مخالف مظاہروں پر مناسب ردعمل نہیں دیا۔