امریکی معاشرے میں قوم پرستی کی کوئی خاص علامت نہیں تھی کیونکہ قوم پرستی میں سب سے زیادہ محبت اور لگاؤ زمین سے ہوتا ہے، لیکن امریکیوں کے پاس یہ زمین بھی انکی اپنی نہیں تھی، انہوں نے ریڈ انڈینز کو بے دخل کرکے اس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ ایک انسانی جرم تھا لیکن اسکو جائز قرار دینے کیلئے انہوں نے یہ دلیل دی کہ چونکہ مقامی باشندے اس زمین کا استعمال نہیں کر رہے تھے اوران میں صلاحیت نہ تھی کہ وہ زمین کوزرعی بناکر پیداوار کر سکیں، اس لیے اہل یورپ کا یہ حق ہے کہ وہ زمین سے فائدہ اٹھائیں اور ترقی کریں۔امریکا کی 13 کالونیز 1776ء میں برطانیہ سے آزاد ہوئیں،اس طرح یہ سال انکی تاریخ کی ابتداء ہے۔ امریکہ نے مقامی باشندوں، قبائل اور افریقی غلاموں کو اپنی تاریخ سے نکال دیا،اس لیے انہوں نے ماضی کی روایات اور اداروں پر اپنی تاریخ اورتہذیب کی بنیاد رکھنے کے بجائے مستقبل کی جانب دیکھااور ترقی کی راہیں بنائیں۔امریکا نے مقامی قبائل کے ساتھ جو ظلم کیے اس کو تاریخ میں پوری طرح محفوظ نہیں رکھا گیا، ایک ایک کر کے تمام مقامی قبائل کا خاتمہ کیاگیا،انکی زمینوں پر قبضہ کیا اور انہیں غلام بنا کرکیمپوں میں محصور کر دیا۔
امریکا بارے تاثر ہے کہ یہاں مساوات ہے، لیکن درحقیقت امریکا کی ابتدائی تاریخ میں ایک بڑی تعداد میں غریبوں اور مفلسوں کو برطانیہ سے نکالا گیا اور انہیں جہازوں میں بھر کر بھیجا گیا کہ یہاں ان سے محنت و مزدوری کرائی جائے۔ جن غریب لوگوں کو یہاں لایا جاتا تھا انہیں انڈنچرڈ لیبرر کہتے تھے، اگرچہ بعد میں وہ آزاد تو ہو جاتے تھے لیکن امریکی معاشرے میں انکا مقام انتہائی کم تر تھا، جبکہ افریقہ سے لائے گئے غلاموں کو نہ توکوئی حقوق تھے اور نہ ہی انکی اپنی کوئی حیثیت تھی، یہ اپنے آقا کی ملکیت تھے۔ امریکا کا نیا دستور بنا تو اس میں ڈکلیئریشن آف انڈیپنڈنس کو بھی شامل کیا گیا،جس میں اعلان تو کیا گیا کہ تمام امریکی برابر ہیں مگر اس میں نہ تو امریکی غلام اور نہ ہی مقامی ریڈ انڈینز قبائل شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ایشیائی ملکوں سے بھی مہاجرین آنا شروع ہوئے تو انکے خلاف بھی تعصب کی ایک نئی لہر اْبھری۔ امریکا کے حکمرانوں کا تصور یہ تھا کہ جو بھی یہاں پر آئے وہ اپنی قدیم کلچر کی شناخت کو فراموش کر کے خود کوامریکی معاشرے میں ضم کردے۔ 18ویں صدی میں امریکا میں نئی شاہراہوں کی تعمیر اور ریلوے لائنز کی ابتداء ہو چکی تھی۔ 1812ء میں امریکی سامراج پالیسی شروع ہوئی، میکسیکو سے جنگ کے بعد کیلیفورنیا اور ٹیکساس پر قبضہ کر کے انہیں امریکا میں شامل کر لیا گیا۔ ریاست لوزیانہ کا وسیع رقبہ فرانس سے خریدا گیا، ہوائی پر قبضہ کیاگیا، الاسکا کا علاقہ روس سے خریدااور پھر انکے یہ سامراجی عزائم امریکا سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں تک پھیل گئے۔ تھیوڈور روز ویلٹ کی صدارت میں فلپائن پر قبضہ کیا گیا، جبکہ چین میں یورپی طاقتوں کے ساتھ امریکہ بھی اوپیئم وار کی لوٹ مار میں برابرشامل تھا۔ پہلی ودوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سامراجی پالیسی بے نقاب ہو گئی،ہیروشیمااور ناگاساکی میں دوایٹم بم گرا کے جاپان پر قبضہ کیاگیا۔ویتنام کوبے دریغ بمباری کرکے برباد کردیا۔ ایشیا، افریقہ اورجنوبی امریکا میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں آمریتوں کی سرپرستی کی۔ 1971 میں امریکہ کا سقوط ڈھاکہ میں پراسرار کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے۔جہاد افغانستان اور وار آن ٹیرر کے نام پر لڑی گئی طویل پرائی جنگوں میں امریکہ نے پاکستان کے سربراہوں اور مجاہدین سے کس طرح کام لیا۔ کمیونزم کے خاتمے میں ہمارا کلیدی کردار ادا تھا، جسکی بدولت امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں عراق،ایران، کویت، یمن، لیبیا، تیونس، مصر، الجزائر میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کیسے پامال ہوئیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیسے فرنٹ اسٹیٹ بن گیا اور ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے دباؤاورپابندیوں عائد کی گئیں۔
امریکہ کے سپر طاقت بننے میں وہ امریکی نظریات اہم ہیں جس کی آبیاری امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے۔امریکہ کی روایت یہ رہی ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک میں رجیم کنٹرول اور چینج کرنے کیلئے فوجی سربراہوں سے قریبی روابط رکھتا ہے اور فوجی افسروں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے، یہ تربیت خفیہ نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط کے تحت ہوتی ہے۔ امریکہ کا ایک پروگرام انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام سویلین کو امریکی طرز حکمرانی، تعلیمی نظام اور خاندانی نظام سے روشناس کرواتا ہے۔ اس میں دوسرے ملکوں کے طلبہ، رائٹرز، صحافی، تاجر، سفراء، سرکاری افسران، پولیس آفیسرز مدعو کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بعد میں اپنے ملکوں کے سربراہ بھی بنتے ہیں۔ ہر سال مختلف شعبوں کے 5ہزار غیر ملکی بین الاقوامی لیڈر شپ پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔ اب تک ایسے دولاکھ سے زیادہ غیر ملکی اپنے ملکوں میں اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ 500 سے زیادہ موجودہ یا سابق سربراہ حکومت ان میں شامل ہیں۔امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمٹ اور پینٹاگون باقاعدہ مشترکہ رپورٹیں کانگریس کو پیش کرتے ہیں۔1947 سے تاحال پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اور کشیدگی کے واقعات اور متبادل کی تلاش میں بھٹو،مشرف،بے نظیرسمیت بہت سے حالیہ سیاستدانوں کی امریکی سرپرستی کے پروگرامز کی تفصیلات مختلف سابقہ امریکی صدور، وزرائے خارجہ اور سی آئی اے عہدیداروں کی تحریروں میں درج ہیں۔
اگرچہ امریکا اور یورپ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے، مگر انکی اپنی جمہوریت کارپوریٹ اداروں اورسرمایہ دارانہ زنجیروں میں قید ہیں۔امریکی مؤرخ اپنی تہذیب کو شاندار بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان واقعات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جن کا تعلق عالمی تشدد، غاصبانہ قبضوں، نسل پرستی اورتعصب سے ہے۔سوال ہے کہ آخرکب تک امریکااوریورپ کے حکمران طبقے اپنے سامراج کی وسعت اور عالمی تسلط کیلئے دنیا کے امن کو جنگوں اور تصادم کے ذریعے اپنے مفادات کو پورا کرتا رہے گا؟ روس کے ٹوٹنے کے بعداس کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں تھی، اس لیے وہ آزاد تھاکہ جہاں چاہے جنگ کرے اور جہاں چاہے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرے۔ یہی وہ رویہ ہے جو امریکی سامراج کو امن عالم کیلئے خطرہ بناتا ہے، لیکن تاریخ بدل رہی ہے، پیوٹن نے روس کو دوبارہ ایک سپر طاقت کا درجہ دلا دیا ہے اورچین معاشی وعسکری سطح پر بطور سپر پاور اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔پاکستان کی ماجودہ سیاسی صورتحال اور رجیم چینج کے امریکی فلسفہ پرچین اورروس کاامریکی مداخلت بارے مضبوط موقف ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث ایشیااور دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ نسل نو اور پاکستانی قیادت کو امریکی چالوں کو سمجھنے کیلئے امریکی سامراج پالیسی اور مداخلت کی تاریخ سے ناصرف واقف ہونا چاہئے بلکہ ماضی کے تلخ تجربات سے سیکھنا چاہیے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ تاہم لگتاہے ہماری قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات کے باوجودکچھ نہ سیکھا ہے۔