سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ کیا سیاسی بحران کے حل کی جانب قدم ہے یا سیاسی منظر نامہ بدستوربے یقینی کا شکار رہے گا؟ اِس کا جواب بہت آسان ہے ماضی میں کسی حکومت نے عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دی ہے بلکہ خلاف فیصلہ دینے سے روکنے کے لیے حمایتی سیاسی جتھوں کو ملک میں انصاف دینے کے سب سے بڑے اِدارے پر چڑھائی پر اُکسایا اِس لیے یہ تصور کرنا کہ موجود عدالتی فیصلے سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائے گا درست نہیںبلکہ عین ممکن ہے کہ حکومت سُبکی محسوس کرتے ہوئے جوابی کارروائی کے لیے کچھ ایسے اقدامات اُٹھائے جس سے سے جاری سیاسی بحران میں اضافہ ہو ماضی میں ایسے بحرانوں کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ پسِ پردہ ہونے والی کوششیں ہی بارآورثابت ہوئیں صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل اختیار58/2B کے تحت جب قومی اسمبلی توڑی تو نوازشریف نے صدارتی حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس پر چیف جسٹس سید نسیم حسن کی سربراہی میںبارہ رُکنی فل کورٹ نے اسمبلی بحال کردی مگر صدر غلام اسحاق خان نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا جب ملک کے دوبڑوں میں محاذ آرائی عروج پر پہنچ گئی توجنرل عبدالوحید کاکڑ نے پسِ پردہ کوششوں سے دونوں کومستعفی ہونے پر رضامند کیاجس سے قوم کواپنی نئی قیادت چُننے کا موقع ملا قبل ازیں محمد خان جونیجو اسمبلی کی بحالی کے لیے جب سپریم کورٹ گئے تو عدالت نے الیکشن میں حصہ لینے کا کہہ کر کوئی ریلیف نہ دیا اسی طرح عدالتِ عظمیٰ اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ سپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا مگرگزشتہ روزجمعرات سات اپریل کو لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو نہ صرف غیر آئینی قرار دیا ہے بلکہ حکومت اور قومی اسمبلی کوبحال کرتے ہوئے ہفتہ نو اپریل کو تحریکِ عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم بھی جاری کیا ہے اسی لیے فیصلے کودرست یا کسی اور حوالے سے دیکھنے پر آئینی امور سے شُد بُد رکھنے والے منقسم ہیں۔
عمران خان نے 2018کے عام انتخابات میں واضح اکثریت نہ حاصل کرنے کی بنا پر ق لیگ ،ایم کیو ایم ،جی ڈی اے اور بلوچستان سے دو چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی مگریہ اتحادی حکومت چار برس بھی پورے نہ کر سکی اور یکے بعد دیگرے اتحادی جماعتیں الگ ہو نے کی بنا پر قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوگئی اور پھر عین ووٹنگ کے روزڈپٹی سپیکر نے تحریکِ عدمِ اعتماد کو بیرونی تعاون سے پیش کرنے کا نُکتہ اُٹھانے پر نہ صرف ووٹنگ نہ کرائی بلکہ عدمِ اعتماد کی تحریک مسترد کرتے ہوئے اجلاس کو بھی برخواست کردیا جس پر عدالتِ عظمیٰ نے اتوار کی چھٹی ہونے کے باوجود سوموٹولیتے ہوئے سماعت شروع کردی اوراپنی تمام تر توجہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر مرکوزرکھی تاکہ کم وقت میں فیصلہ دیا جا سکے لیکن سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور حکومتی وکلامیں تعاون کا فقدان نظر آیاسب الگ الگ پیج پر دکھائی دیے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور چیف الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عدالت نے پوری کوشش کی کہ کوئی سقم نہ رہے لیکن
ایسا ملک میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت اپنی بحالی پر ناخوش جبکہ اپوزیشن خوش ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کو اتحادی جماعتوں کے تعاون سے اگلے ہفتے حکومت بنانے کا یقین ہے ۔
اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ موجودہ حکومت کا خاتمہ یقینی ہے لیکن پہاڑ جیسا سوال یہ ہے کہ جب عمران خان چارپانچ اتحادی جماعتوں کو اکٹھا نہیں رکھ سکے تو کیا شہباز شریف آٹھ نو جماعتوں کو ساتھ لیکر اطمینان سے امورِ مملکت چلا سکیں گے ؟بظاہر ایساہونا مشکل ہے کیونکہ اتحادی اکثر زیادہ سے زیادہ مراعات و فوائد کے چکر میں ایسے مطالبات کرتے ہیں جو حکومتوں کے لیے بہت پریشان کُن ہوتے ہیں جس سے شکوے شکایات اور تلخیاں جنم لیتی ہیں علاوہ ازیں موجودہ اقتدار سے محرومی کے بعد موجودہ حکمران جماعت بھی خاموش نہیں بیٹھے گی بلکہ عین ممکن ہے اپوزیشن کے طورپر ایوان میں بیٹھنے کے بجائے مستعفی ہوکر نئے قائدِ ایوان کے چنائو میںناقابلِ حل مشکلات کھڑی کر دے اگرپوری جماعت کے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو آدھے ملک میں فوری انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا لامحالہ عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا ایوان کے نصف اراکین کے مستعفی ہونے سے عام انتخابات کی راہ تو ہموار ہو سکتی ہے مگر ایسا کرنے کا جو سب سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ن لیگ اور پی پی آپس میں عہدوں کے حوالے سے ایسی تقسیم کر سکتی ہیں کہ قائدِ ایوان اور اپوزیشن لیڈر کے عہدوں سے تحریکِ انصاف کو محروم کر دیا جائے تاکہ نگران سیٹ اَپ بناتے ہوئے کسی سے مشاورت کی ضرورت نہ رہے اورمرضی ومنشا کے مطابق فیصلے کر سکیںاِس لیے کسی قسم کے اقدامات اُٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت کو نفع و نقصان کو پیشِ نظر رکھنا ہو گاالبتہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بیک وقت مستعفی ہوجاتے ہیں تو آئینی بحران مزید سنگین ہو جائے گا کیونکہ اجلاس کی صدارت کا مسئلہ درپیش ہو گا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کی کارروائی جاری رکھنے کے لیے تین رکنی پینل اور چیئرمین بنایا جاتا ہے جنھیں ہر اجلاس سے قبل نئے سرے سے بنایا جاتا ہے اور یہ اختیار بھی سپیکر کا ہے اُن کے علاوہ کسی کے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ سپیکر ،ڈپٹی سپیکر اور پینل آف چیئرمین کی عدم موجودگی میں اجلاس کی کارروائی کیسے چلے گی؟۔
نئی حکومت کے لیے حالات بھی بہت زیادہ سازگار نہیں ہوں گے تجارتی خسارہ 35ارب ڈالر ہو چکا ہے ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر دن بدن گرتی جارہی ہے مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی کمی نہیں آرہی کم ہوتے زرِ مبادلہ کے ذخائر الگ مسئلہ ہے نیز حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے شرح سود میں اضافے سے صنعت کا پہیہ جام ہو سکتا ہے اِس لیے نہ صرف شہازشریف کو دن رات کام کرنا ہوگا بلکہ سیاسی خلفشار کم کرنے کے لیے اپوزیشن کی طرف دستِ تعاون بڑھانا ہو گاعلاوہ ازیں گیارہ اپریل کو بینکنگ کورٹ لاہور سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے اُن پرفردِ جرم لگنے کا امکان ہے یہ الگ پریشان کُن بات ہوگی اِس لیے ایک طرف تو اُنھیں حکومتی امور بہتر چلانے کی طرف توجہ دینا ہو گی تو دوسری طرف اپنے کیسوں کو ختم کرانے یا ریلیف لینے کا سامان کرنا ہو گاسپریم کورٹ نے ہی شریف خاندان کے خلاف مالیاتی جرائم میں ملوث ہونے کا فیصلہ دیا نواز شریف کو نااہل کرنے والے بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل تھے اس لیے زیادہ خوش ہونے والی کوئی بات نہیں بلکہ موجودہ صورتحال کی طرح مستقبل میں بھی سیاسی صورتحال ناخوشگوار ہو سکتی ہے بلکہ ممکن ہے سیاسی بحران کے حل کے لیے ہونے والے موجودہ فیصلے سے کچھ زیادہ مدد نہ مل سکے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سبھی فریقوں کو عام انتخابات کی طرف جا نا پڑے۔
سیاسی بحران کا حل تمام سیاسی قیادت کے مل بیٹھنے اوربات چیت سے ممکن ہے مگر فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ حکومت اور اپوزیشن میں سلسلہ جنبانی منقطع ہے اپوزیشن کو نیب اختیارات،ووٹنگ کے لیے ای وی ایم طریقہ کاراور تارکینِ وطن کو ووٹ دینے کے حق پر سخت اعتراضات ہیں جبکہ موجودہ حکومت کی یہ اولیں ترجیح ہیں اِس لیے اِس معاملے میں شاید ہی کوئی فریق کسی درمیانی راہ پر راضی ہو اگر آنے والی حکومت نیب کے اختیارات کم اورای وی ایم طریقہ کار سمیت تارکینِ وطن کو دیا جانے والا ووٹ کا حق ختم کر دیتی ہے تو عمران خان یہ فیصلے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے جس سے کسی زوردار تحریک کا امکان کسی صورت رَد نہیں کیا جا سکتا یوں ملک میں سیاسی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا اگرسیاسی بحران کے حل کی جانب قد م بڑھانا ہے تو تمام سیاسی قیادت میںوسیع تر مکالمے کی راہ ہموار کرنا ہو گی تبھی سیاسی خلفشار کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔