کسی بھی فرد یا ادارے کی طرف سے جب بھی کوئی آئین شکنی ہوتی ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کا سپیکر اس قانون ساز ادارے اور آئین کے محافظ (Custodian) کی حیثیت سے سپریم کورٹ جاتا ہے تا کہ آئین کا تقدس بحال کرایا جائے لیکن آئین پاس ہونے کے 49 سال بعد پہلی دفعہ یہ مسئلہ در پیش ہوا ہے کہ اگر آئین کا محافظ یعنی سپیکر ہی اگر خود آئین شکنی کا مرتکب ہو جائے تو کیا ہو گا۔ اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی کہ ڈپٹی سپیکر کا عدم اعتماد تحریک مسترد کرنے کا اقدام کتنا جائز تھا لیکن یہ سوال اٹھتا رہے گا کہ 342 کے ایوان میں 177 ارکان کی رائے کو ایک فرد واحد ایک سیکنڈ میں وجہ بتائے بغیر اور ان کی بات سنے بغیر کیسے مسترد کر سکتا ہے۔ سپیکر کا عہدہ اس لیے پر وقار ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے مگر ہمارے ہاں سپیکر سے بڑا پارٹی باز کوئی نہیں ہے مگر وہ پھر بھی سپیکر رہتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے لیے موجودہ آئینی بحران سے باہر آنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات کا ایجنڈا پورا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈپٹی سپیکر کے عدم اعتماد تحریک مسترد کئے جانے پر اعلیٰ عدالتوں میں کیس کے میرٹس پر اس کی سماعت ہو اور اس پر عدالت اپنا فیصلہ دے۔ ایسی صورت میں سفارتی مراسلہ اہمیت اختیار کر جائے گا جو اس سارے معاملے کی بنیاد ہے۔
اس مراسلے کی بہت سی چیزیں ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس خفیہ مراسلے کے دستخط کنندہ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر اسد مجید خان کا نام سیکرٹری وزارت خارجہ کے لیے ممکنہ طور پر گونج رہا ہے کیونکہ وہ سینئر سفیر اور کیریئر ڈپلومیٹ ہیں اس خفیہ مراسلے کی وجہ سے ان کا کیریئر متاثر ہو سکتا ہے یہی پوزیشن امریکی نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کی ہے کہ اگر ان پر الزامات ثابت ہو جائیں تو وہ دنیا بھر میں ایک بدنام زمانہ سفارتکار کے طور پر جانے جائیں گے اور بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ میں ان کا اعتبار اٹھ جائے گا اور ان کے لیے امریکہ کا وزیر خارجہ بننا ناممکن ہو جائے گا۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ کیا سفیر کا بھیجا گیا خفیہ مراسلہ نشر کیا جا سکتا ہے ایسا عام طور پر تو ممکن نہیں ہوتا البتہ غیر معمولی حالات میں کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے اس کی دو مثالیں ہیں 1999ء میں میاں نواز شریف نے انڈیا میں پاکستانی سفیر اشرف جہانگیر کا وہ مراسلہ سر عام جاری کر دیا تھا جس میں انہوں نے نجم سیٹھی کے بارے میں حکومت کو لکھا تھا کہ کس طرح انہوں نے دشمن ملک کی سر زمین پر کھڑے ہو کر پاکستان مخالف بیانات دیئے۔ 1999ء میں جب کارگل جنگ رکوانے کے لیے نواز شریف امریکہ گئے اور وہاں صدر کلنٹن کے کہنے پر فوجیں واپس بلانے کا معاہدہ کیا اور وطن واپس آ کر اس سے انکار کیا تو کلنٹن اتنے غصے میں تھے کہ انہوں نے وہ معاہدہ آؤٹ کر دیا۔ ان حالات میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ خفیہ مراسلہ خفیہ نہیں رہے گا ویسے یہ عدالت کی مداخلت سے پہلے ہی آؤٹ ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جوابدہی کا عمل ناپید ہے کسی بھی معاملے میں کتنی ہی غیر معمولی صورتحال ہو اس پر وضاحت دینے کا رواج نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں یونیفارم ممبران کی طرف سے خفیہ مراسلے کی صداقت کی تائیدکی گئی ہے تو پھر اگلے دن آرمی چیف صاحب نے امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار بھی تو بھرپور انداز میں کیا ہے۔ اسی طرح ہماری حکومت نے اس خفیہ مراسلے کے بعد ہونے والی OIC میٹنگ میں چائنہ کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی بطور مہمان شرکت کی دعوت دی تھی مگر وہ نہیں آئے۔ اس دعوت نامے کا کیا جواز تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ خفیہ مراسلے پر امریکی سفارتخانے سے احتجاج تین ہفتے کے بعد کیوں کیا گیا یہ تو فوری ہونا چاہیے تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خفیہ مراسلے کا معاملہ امریکہ کے ساتھ ایک ایسے صدر کے دور میں اٹھا ہے جن کو حکومت پاکستان نے 2008ء میں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا ہے۔ ہماری مراد امریکی صدر جوبائیڈن میں جو یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں ان سے زیادہ پاکستان کو شاید ہی کوئی امریکی جانتا ہو کیونکہ وہ گزشتہ 40 سال سے پاکستان کو ڈیل کر رہے ہیں مگر اب وہ پاکستان کے وزیراعظم کو ایک فون کال تک کرنے کے روادار نہیں ہیں۔
ایک ممکنہ صورت حال اور بھی ہے اسد مجید خان جو کہ اس مراسلے کے Author ہیں وہ ایک ذمہ دار شخص ہیں امریکہ میں تعینات ہونے والا وزارت خارجہ کا سینئر ترین افسر معمولی نہیں ہوتا اگر کل انہیں اعلیٰ عدالت طلب کرتی ہے اور وہ عدالت کے سامنے مراسلے کے مندرجات کو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں یا ایسا مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ انہوں نے محکمانہ دباؤ میں آکر اس پر محض دستخط کیے تھے تو پھر یہ پوری کہانی ڈوب جائے گی اس سے تحریک انصاف کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل سکتی ہے اور دوسری طرف پاک امریکہ تعلقا ت ہر اس کے دور رس منفی اثرات ہوں گے اور اس کا ضمنی پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی جو پارٹی فنڈ ریزنگ امریکہ سے ہوتی ہے اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں تحریک انصاف اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پہلی دفعہ اپوزیشن میں آنے والی ہے۔ اس سے پارٹی کا شیزارہ بکھر سکتا ہے پارٹی پہلے ہی لا تعداد مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ پارٹی کے سینئر ترین منحرفین جس میں چودھری سرور اور علیم خان جیسے لوگ ہیں وہ کہہ چکے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر کی تعینات کے لیے 3-3 کروڑ روپے دیئے جاتے رہے ہیں۔
خفیہ مراسلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب وزیراعظم کو اس سازش کا بروقت پیشگی علم ہو چکا تھا تو اس وقت اگر وہ چاہتے تو اسمبلیاں توڑ دیتے تا کہ دشمن ملک کو ان کے خلاف عدم اعتماد کا موقع ہی نہ ملتا۔ پھر انہوں نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ اس مراسلے کو Genuine ثا بت کرنا تحریک انصاف کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ البتہ پاکستانی سیاست پر حتمی طور پر کچھ کہنا ہمیشہ ناممکن ہوتا ہے کیونکہ سیاست کے محکمہ موسمیات میں بغیر بادلوں کے بھی موسلا دھار بارشیں ہو جاتی ہیں۔ بہرحال یہ خفیہ مراسلہ بہت سے چہروں کو بے نقاب کر دے گا۔