لاہور: امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجموعی داخلی پیداوار میں اضافے کی پیش گوئی کے مطابق پاکستان 2040ءتک دنیا کی 23 ویں بڑی معیشت بن جائے گا۔
نجی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ دعویٰ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل (این آئی سی) کی رواں سال کی عالمی رجحانات پر مبنی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے جو ہر چار سال بعد شائع کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ پالیسی میکرز اور شہریوں کو معاشی، ماحولیاتی، ٹیکنالوجیکل اور ان آبادیاتی قوتوں کے حوالے سے قریب ترین اندازے لگانے میں مدد فراہم کرتی ہے جو آئندہ 20 سالوں میں دنیا کی صورتحال بدلنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
رپورٹ شائع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد پالیسی میکرز اور شہریوں کو کسی بھی طرح کے متوقع مستقبل کیلئے تیار کرنا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں سے عالمی معاشی سرگرمیوں کا جھکاﺅ ایشیاءکی جانب ہے جو اس کی دنیا کے دیگر ممالک، بڑی آبادیوں اور پسنے والی غربت میں کمی کے مقابلے میں اقتصادی شرح کو ظاہر کرتی ہے اور یہ رجحان 2030ءتک جاری رہنے کا امکان ہے بلکہ 2040ءتک بھی جاری رہ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے چند سب سے بڑے ممالک 2040ءتک دنیا کی بڑی معیشت بننے کی پوزیشن میں ہیں بوجوہ اس کے کہ ان کی فی کس آمدنی کئی ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔ گزشتہ 40 سالوں کے دوران ایشیاءکی ریکارڈ ترقی نے ایشین معیار زندگی اور درمیانی حتیٰ کہ اعلیٰ آمدنی والی معیشتوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کی ہے۔
سال 2020ءکے دوران عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 18 فیصد جبکہ دیگر ترقی پذیر ایشیائی ممالک کا حصہ 7 فیصد رہا اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو 2040ءتک ایشیائی ممالک کا عالمی جی ڈی پی میں حصہ 35 فیصد تک ہو سکتا ہے جن میں چین اور بھارت کا حصہ سب سے زیادہ 29 فیصد ہو گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایشیاءمیں تیزی سے ہونے والی اقتصادی ترقی کا رجحان اسی طرح جاری رہا تو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ممالک 2040ءتک دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوں گے۔ مثال کے طور پر بھارت میں اقتصادی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے اور یہ 2027ءتک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کے سفر پر بھی ہے، یہ دنیا کی تین سب سے بڑی معیشت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے اور یہاں اقتصادی ترقی کی شرح بھی زیادہ ہے اور اگر ایسے ہی سب جاری رہا تو یہ 2040ءتک دنیا کی 10 سب سے بڑی معیشت والے ممالک میں شامل ہو سکتا ہے تاہم ان ممالک میں فی کس آمدنی اور معیار زندگی ترقی یافتہ ممالک سے کم ہی رہے گا۔