نئی دہلی: جی ٹوینٹی اجلاس میں ممالک کی گروہ بندی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کا اہم مسئلہ نظر انداز ہو نے کا خدشہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کاکہنا ہےکہ جی ٹوینٹی اجلاس میں چونکہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی شی جنگ پنگ شرکت نہیں کررہے ہیں اس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی پر بات تو ضرور ہوگی لیکن اصل اور بنیادی مسئلے کاحل نہیں نکلے گا۔
رپورٹ کے مطابق 2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال ہے اور اس کے اثرات انسانی زندگی پر بھی ہور ہے ہیں ۔جغرافیائی سیاسی تناؤ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی رہنما شی جن پنگ اس اہم اجلاس میں شریک نہیں ہورہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گروپ کے روایتی حتمی پیغام تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔کوپ28 کے بعد جی ٹوینٹی اجلاس کو اہم ترین تصور کیاجارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ سائمن سٹیل کاکہنا ہے کہ مختلف ممالک کے ترجمان سے بات کرنے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ ناکافی ہیں اور حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس بھی موسمیاتی تبدیلی اور ممالک کی عدم توجہی اور سیاسی تنائو کی وجہ سے خاصے پریشان نظر آرہے ہیں۔
واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، بھارت، انڈونیشیا اور چین سمیت ممالک میں بھی ہورہے ہیں۔ماہرین کے مطابق کوئلے پر انحصار، روس یوکرین پر حملے اور بیجنگ کے ساتھ تنازعات جی ٹوینٹی اجلاس کو متاثر کریں گے ۔کچھ ترقی یافتہ ممالک پہلے ہی 2020 تک غریب ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر موسمیاتی مالیات فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
افریقی ممالک نے اس ہفتے قابل تجدید توانائی میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا ہے ، جس کی ادائیگی عالمی کاربن ٹیکس کے ذریعے کی گئی۔افریقی ممالک قرضوں سے نجات اور تنظیم نو بھی چاہتے ہیں، اور موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کے لیے فنڈز کا تیزی سے نفاذ چاہتے ہیں۔