عمران خان کی مقبولیت پر صدقے واری جانے والوں اور انھیں ان کی مبینہ مقبولیت کی بنا پر ہر طرح کے قانون سے ماورا قرار دینے والوں کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا ہے کہ ہم ہزار بارہ سو سال پہلے اس دور سے گذر رہے ہیں کہ جب پچاس بندے قتل کرنے والا اور پچاس گھروں کو لوٹنے والاقاتل، وحشی اور لٹیرا کہلاتا تھا لیکن پچاس ہزار لوگوں کو قتل کرنے اور پچاس ہزار گھر تاراج کرنے والا فاتح کہلاتا تھا۔تحریک انصاف کے ایک رہنما کہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کو اس وقت سزا ہوئی کہ جب وہ عوام میں مقبول نہیں رہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر میاں نواز شریف عوام میں مقبول نہیں رہے تھے تو 2018کے الیکشن میں محکمہ زراعت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی تحریک انصاف کو پنجاب اور وفاق میں اگر سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی تھی تو میاں نواز شریف کی مقبولیت کا ہی کمال تھا اور جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا سوال ہے اس ضمن میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
بھٹو کی مقبولیت اگر سزا کے وقت ختم ہو چکی تھی تو ان کی سزا پر خود سوزی کرنے والے کیا آسمان سے ٹپکے تھے اورپھر ضیاء دور میں جیلیں پھانسیاں اور ساٹھ ہزار کوڑے، یہ سب کچھ ان کی عوامی مقبولیت کے بغیر ہی ہو گیا تھا اور جن کی زبان میں موصوف نے بات کی ان کا تو آج بھی موقف یہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اب بھی ووٹ بھٹو کے نام پر ہی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کو نا اہل قرار دینے والے اسلام آباد سے باہر کیسے نکلیں گے۔یہ باتیں اس جماعت کا بندہ کہہ رہا ہے کہ جس کی جماعت کا نام ہی تحریک انصاف ہے اور جس جماعت کے قائد کی سیاست کا محور و مرکز ہی بظاہر یہ ہے کہ انصاف کا معیار سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔
ہم سوچ رہے تھے کہ اس بات پر لکھیں کہ عمران خان نئے آرمی چیف کو بھی متنازع بنانے کی کوشش ضرور کریں گے لیکن پھر اس خیال کو خود ہی رد کر دیا کہ نہیں کوئی بھی پاکستانی اس حد تک نہیں جا سکتا لیکن خان صاحب نے یہ کام بھی کر دکھایا ہے اور یہ کام کس حد تک خطرناک ہے کہ صدر عارف
علوی نے یہ کہہ کر عمران خان کے بیان سے لا تعلقی اختیار کی کہ آرمی چیف سمیت پوری فوج محب وطن ہے عمران خان اپنے بیان کی خود وضاحت کریں۔آئی ایس پی آر کے ترجمان خان صاحب کے بیان پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا لیکن بات یہ ہے کہ خان صاحب جو کچھ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں ان کا تو بہت کم قصور ہے اصل قصور تو ان کا ہے کہ جن کی بنا کسی جواز کے اب بھی آشیر باد کسی نہ کسی شکل میں خان صاحب کو حاصل ہے۔ کوئی لاکھ کہتا رہے کہ ایسا نہیں ہے لیکن شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
تو یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ اگر ایک فیصلہ میں ایک جماعت کے 25ایم پی ایز کو ان کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور جب بات دوسری جماعت کی آتی ہے تو فیصلہ بھی بدل جاتا ہے اور آئین اور قانون کے تقاضے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں تو جناب لاؤڈ سپیکر سے کسی کے حق میں بیان دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ آپ کے فیصلوں کا انتخاب آپ کے ارادوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور مسلم لیگ نواز کے جاوید لطیف نے ٹھیک کہا ہے کہ وزیر اعظم قوم کو بتائیں کہ اگر وہ اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف کو انصاف نہیں دلا سکتے اور ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو انصاف نہیں دلا سکتے اور عمران خان کے ایک نہیں بلکہ لمبی فہرست ہے کہ جس کی بنا پر ان کے خلاف مقدمہ بنا کر انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں ہو رہا اور یہی بات کامران شاہدنے اپنے پروگرام میں کہی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر حکومت خان صاحب کو گرفتار نہیں کرتی تو پھر یہ ایک بزدل حکومت ہے۔بات کسی کی حمایت یا مخالفت کی نہیں ہے بلکہ وطن عزیز کے جو حالات ہیں ہماری گذارشات اسی حوالے سے ہیں۔ چند ہفتے پہلے سیاست کے میدان میں معمولی سی بہتری کے ابھی امکانات ظاہر ہوئے تھے کہ ڈالر چھلانگیں مارتا ہوا نیچے آیا تھا لیکن جیسے ہی خان صاحب نے دوبارہ جلسہ جلسہ کھیلنا شروع کیا تو ڈالر کے نیچے آنے کا عمل رک گیا اور سست روی سے اس کی پرواز پھر شروع ہو گئی اور دوسرا جس بات کا ہم رونا روتے ہیں کہ خان صاحب کا کام کیا صرف اس ملک میں انتشار پیدا کرنا ہی ہے یا تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کرتی پریشان حال قوم کے دکھوں میں اس کی مدد کرنا بھی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ خان صاحب کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں کہ کسی ضد پر اڑ جائیں کہ اسے پورا کئے بغیر وہ خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیں گے اور فیصل آباد کے جلسے میں بالآخر وہ بلی کہ جس کا ذکر ہم نے اپنی گذشتہ کئی تحریروں میں کیا تھا اور جو خان صاحب کی مسلسل حرکت کی اصل وجہ ہے وہ بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی کہ جناب اصل پھڈا نومبر کی تقرری کا ہے۔ خان صاحب اپنے بقول بڑی دور کی کوڑی لائے اور یہ بات سچ ہے کہ ان کے ماننے والوں کے لئے خان صاحب جو بھی کہہ دیتے ہیں وہ تاریخی بھی ہوتی ہے اور عقل و فہم کے اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہے تو جناب بقول خان صاحب، زرداری صاحب اور میاں نواز شریف اپنی مرضی کی تقرری کریں گے۔ ہمیں تو خان صاحب کی بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے آنے والے آرمی چیف کو تو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں اچنبھے والی کون سی بات ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم ہوتے تو کیا وہ اپنی مرضی کے بجائے حزب اختلاف کی مرضی سے نئے آرمی چیف کا تقرر کرتے۔رہی کرپشن کی بات تو اگر ان کے دامن پر کرپشن کے داغ نہیں بلکہ فقط الزامات ہیں تو یہ سعادت تو اب عمران خان اور ان کی جماعت کے اکثر لوگ بھی حاصل کر چکے ہیں اور دوسری بات کہ انھیں علم ہونا چاہئے کہ جنرل ضیاء کو بھٹو صاحب نے، جنرل مشرف، جنرل راحیل اور بعد میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو میاں نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن ہونی تو ہو کر رہتی ہے اسے کون روک سکتا ہے اس لئے جس تناظر میں خان صاحب نے نئے آرمی چیف کے تقرر کی بات کر کے انھیں متنازع بنانے کی مذموم کوشش کی ہے تاریخی تناظر میں اس کی کوئی بنیاد ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت ہے۔ خان صاحب جو واویلا کر رہے ہیں اس میں کوئی ان پر زیادتی نہیں کر رہا بلکہ وہ خود اپنے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس کا خمیازہ قوی امید ہے کہ اب انھیں عدالتوں میں بھگتنا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں لاڈلے پن میں کمی اور انھیں پتا چلنا شروع ہو جائے گا کہ وقت میں تبدیلی کیا قیامت برپا کرتی ہے۔