اسلام آباد : وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے الیکشن ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ای وی ایمز کی مخالفت کرنے والے نہیں چاہتے کی شفاف الیکشن ہوں۔
اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکٹرانک مشین کے ذریعے انتخابات کو مسترد کیے جانے کے حوالے سے نیوز کانفرنس میں ردعمل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز قائمہ کمیٹی میں ای وی ایمز کے بارے میں 37 نکات پر مشتمل گزارشات جمع کرائیں ان میں سے 27 کا تعلق ای وی ایمز سے نہیں ہے صرف 10 کا تعلق الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ہے۔
شبلی فراز کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے انتخابات کا شفاف ہونا ضروری ہے۔ ای وی ایمز سے ہی انتخابات شفاف ہوسکتے ہیں۔ ای وی ایمز پر الیکشن کمیشن کو کئی بار بریفنگ دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات میں جمع کروائے جانے والی رپورٹ میں حکومت کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر 37 اعتراضات اٹھائے تھے اور اسے آئندہ انتخابات کے لیے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ۔الیکٹرانک مشین دھاندلی رک سکتی ہے نہ ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹنگ مشین ہیک ہوسکتی ہے، بآسانی ٹیمپر اور ساف ویئر بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ الیکشن فراڈ نہیں روک سکتی، ای ایم وی کے ذریعہ آزادانہ،شفاف اور قابل اعتماد انتخابات نہیں ہوسکتے، مشین کس کی تحویل میں رہے گی کچھ نہیں بتایا جارہا۔ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے، اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں نہ عوام کو اعتماد ہے۔جبکہ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہےکہ ای وی ایم میں بہت بڑے فراڈ کا خدشہ ہے۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت ای وی ایم کے استعمال کیلئے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہی ہے، وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کو ٹیکنالوجی کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کے نزدیک الیکشن کی ساکھ بہت اہم ہے اور صرف اسی ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت کی جا سکتی ہے جسے تمام اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں نا ووٹ کی کوئی راز داری ، نا ووٹ ڈالنے والے کی، نا شفافیت نا آئندہ عام انتخابات سے پہلے ٹیسٹنگ کا وقت، نا اسٹیک ہولڈرز متفق، نا عوام کو اعتماد، نا ہی ملک بھر کیلئے فنڈنگ دستیاب، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 37اعتراضات اٹھا دیئے۔
الیکشن کمیشن نے کہا الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی نہیں روک سکتی، ہیک ہو سکتی ہے، باآسانی ٹیمپر کیا جا سکتا ہے، سافٹ ویئر بدلا جا سکتا ہے، یہ مشین نا الیکشن فراڈ روک سکتی ہے، نا ریاستی طاقت کا غلط استعمال، نا بیلٹ بھرنے کو نا ووٹ کی خریدو فروخت کو کیسے یقین کر لیں یہ مشین ایماندارانہ ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئین کے مطابق آزادانہ، شفاف اور قابل اعتماد انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اعتراض کیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے آئندہ عام انتخابات میں استعمال کیلئے وقت بہت کم رہ گیا ہے دو سال سے بھی کم عرصے میں ملک بھر میں مشین کا ٹیسٹ ٹرائل اور عوام اور عملے کو مشینوں کے استعمال کی ٹریننگ دینا ممکن نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کیے گئے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے بیلٹ کے خفیہ نہ رہنے کا خدشہ ہے اسکے علاوہ ووٹرز کی شناخت بھی ظاہر ہوسکتی ہے۔الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے کہ ووٹنگ کا عمل سرکٹ کے اندر اور بلیک باکس میں ہو گا جو ووٹر کی نظر سے اوجھل ہو گا اس سے شفافیت پر سوال اٹھ سکتا ہے اسی بنیاد پر جرمنی کی سپریم کورٹ نے الیکٹرانگ ووٹنگ مشین کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعتراض کیا ہے کہ ملک بھر میں شدید موسمی حالات کے سبب پاکستان میں ہر جگہ پر مشین کے استعمال کی صلاحیت ایک جیسی نہیں اور پائلٹ پراجیکٹ میں مشین نے کچھ شہروں میں دوپہر تین بجے کام کرنا بند کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعتراض کیا ہے کہ ملک بھر میں مشین کے استعمال کیلئے بڑے پیمانے پر پائلٹ پراجیکٹس نہیں کئے گئے ۔الیکشن کمیشن نے عتراض اٹھایا ہے کہ مشین کی منتقلی اور ویئر ہائوس میں اس کا سافٹ ویئر تبدیل ہو سکتا ہے جس سے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے۔
الیکشن کمیشن نے اعتراض کیا ہے کہ ای وی ایم کے استعمال سے کم از کم 150ارب روپے کا خرچہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی نہیں روک سکتی۔ اسکے علاوہ مشین کے استعمال سے قبل آئین ترمیم اور رولز میں تبدیلی بھی لانا ہو گی۔موسمی حالات میں مشین کی صلاحیت بھی ایک جیسی نہیں ، ووٹر کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی رکاوٹ بنے گی،الیکشن تنازعات کی صورت میں ثبوت نہیں ملیں گے،نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے، عین وقت عدالتی حکم سے بیلٹ میں تبدیلی ہوجاتی ہے، اس کام میں مشکل پیش آئے گی ،ای وی ایم کم شرح ووٹنگ یا خواتین کی کم از کم شرح ووٹنگ کی شرائط پوری نہیں کر سکتی ۔
الیکشن کمیشن کے اعتراضات میں کہا گیاہے کہ ای وی ایم مشینوں کے استعمال کیلئے کم از کم 150 ارب روپے درکار ہونگے اسکے باوجود الیکشن کی ساکھ اور شفافیت پر سوالات اٹھیں گے، استعمال سے قبل آئین میں ترمیم اور رولز میں تبدیلیاں بھی لانا پڑیں گی۔اس سے قبل سینیٹ کی پارلیمانی امور کی کمیٹی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مینوفیکچررکمپنی کے رابرٹ ڈوبلر نے کہا کہ 2017 میں الیکشن کمیشن پاکستان کے ساتھ پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا،دنیا میں 36 ممالک ای وی ایم کا استعمال کر رہے ہیں ۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ 18 ملک ای وی ایم استعمال کر رہے تھے 9 ملک چھوڑ چکے ہیں۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا سکتا ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ ای وی ایم میں بہت بڑے فراڈ کا خدشہ ہے۔ای وی ایم کے معاملے پر کل کمیٹی ارکان ووٹنگ کریں گے۔سینیٹر تاج حیدر کی صدارت میں سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورکے اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں 2023 کے انتخابات ای وی ایم کے زریعے ہونے چاہئیں۔