لگتا ہے پاکستانی سیاست کا سکرپٹ بھی فلمیں بنانے والے کسی سکرپٹ رائٹر نے لکھا تھا۔ ہماری سیاست میں بھی وہی سب کچھ ہے جو ایک ڈبہ فلم میں ملتا ہے۔ یعنی سسپنس، بڑھکیں، لڑائی، مارکٹائی، سازشیں، امید، ناامیدی، کامیاب اور ناکام محبتیں وغیرہ۔ فلموں اور سیاست کی اس مماثلت میں یہ پہلو حقیقت پر مبنی ہے کہ دونوں کا سکرپٹ اکثر پہلے ہی لکھا جاچکا ہوتا ہے اور تھوڑی بہت وقتی تبدیلی کے ساتھ فلم پردہ سکرین پر اور سیاست انتخابی نتائج کی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ ہماری سیاست کی فلم کے سکرپٹ کے حوالے سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے اکثر کردار ووٹروں کے انسانی حقوق پامال کرتے اور اُن میں مخصوص نوعیت کی ہراسمنٹ پھیلاتے نظر آئیں گے۔ اِس کی عام سی تشریح میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بیانات، الزامات، سازشیں اور جوڑتوڑ وغیرہ شامل ہیں۔ اس بات کو سمجھنا بہت آسان ہے کہ اگر ایک سیاسی رہنما دوسرے سیاسی رہنما کے خلاف بولے تو اُس کے فالووز اپنے رہنما کے خلاف باتیں سن کر کتنی ذہنی اذیت میں آتے ہیں۔ ہراسمنٹ کی اِس شکل کے خلاف اب تک آواز بلند نہیں کی گئی۔ یہاں فیصلہ کرنے کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں ہماری سیاست کے سکرپٹ کو فلمی سٹائل سے الگ کرکے ووٹروں اور عوام کی فلاح و بہبود کے فلسفے کے تحت لکھنا ہوگا ورنہ ہمارے دیس میں سیاست گردی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہوجائے گی اور ”ردالسیاست“ جیسا بڑا آپریشن بھی کوئی پائیدار سدھار نہیں لاسکے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سیاست دان ”مائنس سیاسی خودغرضی“ کا نیا سکرپٹ خود لکھیں۔ ایسی ہی سیاسی خودغرضی کی ایک بڑی مثال عام انتخابات سے قبل نگران وزیراعظم کی تلاش ہوتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد نگران وزیراعظم اور نگران حکومت کا تعلق صرف روزمرہ کے ضروری ملکی معاملات چلانا ہے جبکہ عام انتخابات کا مکمل انتظام اور نگرانی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ گویا نگران حکومت کا عام انتخابات کے نتائج سے بظاہر کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے توپھر عام انتخابات سے پہلے نگران وزیراعظم کے تقرر کے لیے جو مبینہ زور آزمائی سامنے آتی ہے، سسپنس اور پارٹی مفادات کی جو مبینہ چالیں چلی جاتی ہیں وہ انتخابی عمل کو مشکوک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ اس عمل کو مشکوک بنانے کے لیے چار دلیلیں سب پر بھاری ہیں کہ اگر نگران وزیراعظم کا تعلق چند ہفتوں کے لیے روزمرہ حکومتی کاموں سے ہے اور انہیں انتخابی عمل میں کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں تو حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں نگران وزیراعظم کی تعیناتی کے لیے اتنی شدومد کے ساتھ کھینچا تانی میں کیوں پڑتی ہیں؟ دوسری یہ کہ نگران وزیراعظم کے لیے سسپنس، جوڑتوڑ اور پارٹی مفادات کے تحت
ووٹروں اور عوام کو ذہنی ٹینشن کی ہراسمنٹ کا شکار کیا جاتا ہے۔ تیسری اہم دلیل یہ کہ نگران حکومت ووٹروں کی منتخب کردہ نہیں ہوتی تو پھر عوام اسے اپنی نمائندہ کیوں سمجھیں اور اس پر اعتماد کیوں کریں؟ چوتھی یہ کہ امریکہ اور بھارت سمیت کئی اہم ملکوں میں نگران حکومت کی نامزدگی کا ایسا کوئی فارمولا موجود نہیں ہے۔ یوں نگران وزیراعظم کے تقرر کا موجودہ عمل جہاں ووٹروں اور عوام کے انسانی حقوق کی پامالی ہے وہیں انتخابات کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس حوالے سے تجویز ہے کہ مستقبل میں عام انتخابات کے لیے نگران وزیراعظم اور نگران کابینہ کی جگہ ”نگران انتخابی کونسل“ ہونی چاہیے جس کے قیام کے لیے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لائی جائے۔ اس نگران انتخابی کونسل کے مینڈیٹ میں صرف اور صرف عام انتخابات تک روزمرہ حکومتی معاملات کو چلانا اور الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کے حکم پر تمام سہولتیں فوری مہیا کرنا شامل ہو۔ چونکہ اس نگران انتخابی کونسل کا مینڈیٹ غیرسیاسی ہوگا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کونسل کے ممبران میں کوئی بھی سیاسی فرد شامل نہ ہو بلکہ یہ کونسل پروفیشنل، ٹیکنیکل اور انتظامی افراد پر مشتمل ہو۔ اس نگران انتخابی کونسل کے ممبران میں تمام اہم وفاقی وزارتوں مثلاً دفاع، امور خارجہ، داخلہ، قانون، خزانہ، پانی و بجلی، آئی ٹی، انفارمیشن اور پٹرولیم وغیرہ کے وفاقی سیکرٹری بالحاظ عہدہ شامل ہوں جبکہ گورنر سٹیٹ بینک کو بھی اس کونسل میں بطور رکن ممبر شامل کیا جائے۔ مذکورہ نگران انتخابی کونسل براہِ راست صدر مملکت کی سپرویژن میں کام کرے۔ اس کونسل کا مینڈیٹ اور اختیارات بہت محدود ہوں اور اس پر مستقل سخت نظر بھی رکھی جائے۔ بالکل ایسے ہی صوبائی سطح پربھی نگران انتخابی کونسلیں صوبائی سیکرٹریوں کے ساتھ گورنر کے ماتحت کام کریں۔ اس نگران انتخابی کونسل کے چند فوری اور اہم ترین درج ذیل فوائد نکلیں گے۔ نگران وزیراعظم اور نگران حکومت کی تشکیل کے وقت کی طرح مذکورہ نگران کونسل کی تشکیل میں سیاسی کھینچا تانی نہیں ہو گی کیونکہ اس کے اراکین بالحاظ عہدہ پہلے سے ہی طے شدہ ہوں گے۔ سیاسی اراکین کی عدم شرکت کے باعث مذکورہ کونسل غیرسیاسی رہ کر عبوری دور کے ضروری روزمرہ حکومتی کام چلا سکے گی۔ نگران وزیراعظم اور نگران کابینہ کے لمبے چوڑے پروٹوکول اور عبوری دور میں اُن پر اٹھنے والے غیرمنطقی اخراجات سے مکمل طور پر بچا جاسکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 1973ء کے آئین کے تحت اب تک جتنی بھی نگران عبوری حکومتیں آئیں اُن میں سب سے زیادہ درویش صفت، جمہوری اور ایماندار نگران وزیراعظم ملک معراج خالد تھے جن کی نگرانی میں 1997ء کے عام انتخابات ہوئے اور میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ دوتہائی اکثریت سے جیت گئی۔ کیا تمام سیاسی جماعتوں نے ملک معراج خالد جیسے غیرجانبدار نگران وزیراعظم کی نگرانی میں ہونے والے اُن انتخابات کو شفاف اور دھاندلی سے پاک قرار دیا تھا؟ کیا اُس وقت اپوزیشن جماعتوں نے اُن انتخابی نتائج کو دل سے تسلیم کرلیا تھا؟ یہی بات 2018ء کے عام انتخابات سے قبل تعینات ہونے والے نگران وزیراعظم اور نگران حکومت کے حوالے سے کی جاسکتی ہے۔ اس ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ آئندہ بھی نگران وزرائے اعظم اور نگران حکومت کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا رہے گا۔ دوسری طرف مجوزہ نگران انتخابی کونسل میں سیاسی رسک بہت کم ہونے کے ساتھ ساتھ پروٹوکول اور اضافی اخراجات کا بوجھ بالکل ختم ہو جائے گا۔ وقت آنے پر آٹومیٹک تشکیل پاجانے والی اس کونسل کے باعث عوام سسپنس اور سیاسی جوڑتوڑ کی ذہنی ہراسمنٹ سے بھی بچ جائیں گے۔ مذکورہ نگران انتخابی کونسل کی تجویز حکومت اور اپوزیشن کے لیے بہت بدذائقہ ہوگی لیکن یہ عوام کے لیے خوش ذائقہ ہوگی۔ کیا پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ یا تھنک ٹینک ہے جو سیاست دانوں کی سیاسی مفاد پرستی والی اُن کی تجاویز کے علاوہ عام پاکستانی شہریوں کی سیاسی تجاویز پر بھی غور کرتا ہو؟۔
نگران وزیراعظم کی جگہ نگران انتخابی کونسل کی تجویز
10:57 AM, 8 Sep, 2021