اِس وقت ملک میں دو محاذوں پر خوب ہلچل ہے ایک محاذ حکومت گرانے اور دوسرا بچانے کی تگ و دو میں ہے اول الذکر کا کہنا ہے کہ مسائل کا واحد حل فوری عام انتخابات اور پھر عنان ِ اقتدار نئی قیادت کو منتقل کرنا ہے اِس میں جتنی تاخیر ہو گی حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے جائیں گے اِس محاذ پر سرگرم خود کو اپوزیشن سمجھتے ہیں مگر خود کو اپوزیشن تصور کرنے والوں کے پاس کے پی کے، پنجاب، کشمیر، گلگت بلتستان میں مکمل حکومتیں جبکہ بلوچستان میں جزوی حکومت ہے جبکہ دوسرے محاذ پر صف آرا پی ڈی ایم کے پاس محض وفاقی حکومت ہے یہ وفاقی حکومت بھی اتحادی جماعتوں کے سہارے تشکیل دے رکھی ہے پنجاب کی حکومت چھن جانے کے بعد وزیرِ اعظم عملاً صرف اسلام آباد کے حکمران ہیں وہ چاروں میں سے کسی ایک صوبائی حکومت کے بارے دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہاں اُن کی اپنی جماعت صحیح معنوں میں حکمران ہے سندھ میں ایسی اتحادی جماعت کی حکومت ہے جو کسی وقت بھی سیاسی داغ مفارقت دے سکتی ہے ایسے حالات کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں عملی طور پر کوئی ایک جماعت اگر مکمل طور پر حکمران نہیں تو کوئی ایک جماعت مکمل طور پر اپوزیشن میں بھی نہیں بلکہ سبھی جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے حکومت میں ہیں اسی وجہ سے حکومت گرانے اور بچانے کی چالوں پر عوامی حلقے تعجب کا اظہار کرتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ جس کے پاس جتنا اقتدار ہے وہ توانائیاں مسائل حل کرنے پر صرف کرتے ہوئے عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دے لیکن ہو اِس کے برعکس رہا ہے بظاہر مسائل حل کرنے کے بجائے دونوں محاذوں پر سرگرم عناصر کے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں اِن کے پیشِ نظر ملکی مفاد نہیں بلکہ اپنی سیاست ہے جس کی وجہ سے سیاسی گرما گرمی سخت تناؤ میں ڈھل رہی ہے ایسے جذباتی فیصلے ملکی مفاد کے منافی ہیں۔
عمران خان کو شکوہ ہے کہ اُنہیں اقتدار سے غلط طریقے سے بے دخل کیا گیا حالانکہ قائدِ ایوان اگر اکثریت کے اعتماد سے محروم ہو جائے تو تبدیلی لانا اپوزیشن کا حق ہے اِس حق کو استعمال کرنے سے اُسے روکا نہیں جا سکتا اب بھی جمہوری طریقہ کے مطابق ہی تبدیلی عمل میں آئی عدمِ اعتماد کے حق میں ایوان کی اکثریت نے ووٹ دیا تو ہی نئے قائدِ ایوان کا چناؤ عمل میں آیا لیکن عمران خان ہنوز اِس تبدیلی کو قبول کرنے سے قاصر اور چاہتے ہیں کہ اُنھیں اقتدار سے محروم کرنے والوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا جائے کوچہ اقتدار سے فوری طور پر رخصت کرنے میں ملک کا مفاد ظاہرکرتے ہیں اور چاہتے ہیں جتنا جلد ہو سکے حکومتیں تحلیل کر کے عام انتخابات کرائے جائیں اِس کے لیے ایک بار پھر ایک اور لانگ مارچ کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر فوری طور پر عام انتخابات کرا دیے جاتے ہیں تو کیا ملک کے تمام معاشی مسائل ختم ہونے کی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ جو اقتدار میں رہ کر معیشت درست ٹریک پر نہیں لا سکے وہ آئندہ ایسا کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتے
ہیں؟ جہاں تک تبدیلی کے پسِ پردہ بیرونی مداخلت کی بات ہے دراصل آج تک کسی حکمران نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ دیگر شخصیات اور عوامل کو موردِ الزام ٹھہرا کر معصوم بننے کی کوشش کی جاتی ہے اگر مداخلت کا دعویٰ وقتی طور پر تسلیم کر بھی لیتے ہیں پھر بھی ایوان کی اکثریت کے اعتماد سے محروم نہ ہوتے تو اندرونی یا بیرونی عناصر کو ہرگز مداخلت کا موقع نہ ملتا اور آج بھی وہ اقتدار میں ہوتے سچ یہ ہے کہ بطور وزیرِ اعظم انھوں نے اپنی جماعت کے منتخب اراکین کے علاوہ اتحادیوں کو بھی نظرانداز کیے رکھا یہ رویہ ہی دراصل اقتدار کی تبدیلی پر منتج ہوا ہے۔
اسمبلیوں کو اپنی معیاد پوری کرنی چاہیے بار بار اسلام آباد پر چڑھائی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ ہی ایسے کسی اقدام کو عوام پسند کرتے ہیں آٹھ برس قبل بھی عمران خان نے اسلام آباد پر چڑھائی کر کے دیکھ لیا مولانا طاہر القادری بھی اُن کے ہمرکاب تھے مگر ایک سو چھبیس دن دھرنے کے باوجود بھی دل کی مراد حاصل نہ کر سکے کیونکہ طاہرالقادری کی طرف سے دھرنے سے اُٹھنے کے بعد آخری دنوں میں حالات ایسے بن گئے کہ دن کو سوائے خالی کرسیوں کے کچھ نہ ہوتا البتہ
سرِ شام چند سو افراد کا ہلا گلا دیکھنے کو ملتا اگر پشاور سکول کا سانحہ نہ ہوتا تو دھرنے کی سو فیصد مایوس کن ناکامی عیاں تھی سکول سانحہ کی آڑ میں دھرنا ختم کرنے کے اعلان کا موقع ہاتھ لگنے سے کچھ عزت رہ گئی پھر پاناما سکینڈل پر اسلام آباد کو حصار میں لینے کی کوشش کی گئی مگر حکومت نے ریاستی طاقت سے یہ کوشش بھی ناکام بنا دی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت شروع کر دی لیکن اقتدار کی تبدیلی کی خواہش پھر بھی پوری نہ ہو سکی رواں برس پچیس مئی کو ایک اور لانگ مارچ کی کال دے کر خیبر پختونخوا سے بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے رات گئے اسلام آباد آئے لیکن مظاہرین کی قلیل تعداد کی وجہ سے ایک پُراسرار سی تقریر پر اکتفا کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا عمران خان کے دورِ اقتدار میں مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو نے بھی مہنگائی مارچ کر کے دیکھ لیا لیکن عوامی حلقوں سے ایسے کسی بھی مارچ کو پذیرائی نہ ملی بہتر یہ ہے کہ جذباتی فیصلے کرنے کے بجائے ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھا جائے اور سیاست پر ریاست کو ترجیح دی جائے تاکہ اُن کی شخصیت کا تاثر ایک سنجیدہ اور بردبار نظر آئے نہ کہ جذبات کی رو میں بہنے والے ایسے چہرے کا تاثر راسخ ہو جسے اپنی ذات کے سوا کچھ عزیز نہ ہو اور ملک اور قوم کا مفاد جس کے نزدیک بے معنی ہو یاد رکھیں ساکھ بنانا مشکل ہوتا ہے مگر بگاڑنے کے لیے چند لمحے بھی کافی ہیں اور ایک بار ساکھ خراب ہو جائے تو بہتر کرنے میں مہینے اور سال بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا غور و فکر اور مشاورت سے ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے لاابالی اور کھلنڈرے نظر نہ آئیں۔
حقیقی آزادی کے نعرے دلفریب سہی مگر اِس کا مطلب کسی ایک شخص کو اقتدار دینا نہیں بلکہ جمہوری طریقہ کار کے مطابق عوامی حکمرانی یہ ہے کہ ایوان کی اکثریت کا اعتماد رکھنے والے کو حکومت تشکیل دینے کا موقع دیا جائے عوامی مقبولیت کا مطلب فردِ واحد کو تمام اختیارات فیصلوں تھما دینا بھی ہرگز نہیں ٹھیک ہے عمران خان نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کی حکمرانی کے دوران امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، سعودیہ اور عرب امارت سے تعلقات مسلسل اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے جس کی وجہ کچھ غیر دانشمندانہ فیصلے اور غیر ضروری تنقیدی اظہارِ خیال تھا حالانکہ امریکہ جو پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اب ایک بار پھر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے آثار ہیں اور کسی حد تک دفاعی امداد بھی بحال ہو چکی ہے عالمی مالیاتی اِدارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مالیاتی تعاون بھی کسی حدتک دوبارہ شروع ہو چکا ہے تبھی روپے کی قدر و قیمت میں آنے والی گراوٹ کم ہوئی ہے مگر سیاسی قیادت ہنوز جذبات کی رو میں بہہ رہی ہے کیونکہ وہ ملکی مفادکو فوقیت دینے کے بجائے نظرانداز کر رہی ہے بھلے شہباز شریف عالمی سطح پر معروف نہیں لیکن اگر وہ عالمی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہیں تو اِس پر سٹپٹانا مناسب نہیں بلکہ جذبات سے نکل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں ساتھ دینے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ قسم اُٹھا کر عمران خان کو فراڈیا اور غدار قرار دیں گے تو اِس کا مطلب یہی ہو گا کہ وہ کسی کا تعاون حاصل کرنے میں سنجیدہ بھی نہیں یہی رویہ اور سوچ مسائل کی موجب ہے۔