یا رسول ؐ اللہ…… ربیع الاول کا مبارک مہینہ تمام جہانوں پر رحمتوں کا نزول کرتا ہوا اُس با برکت صبح کی طرف گامزن ہے جب اللہ نے اپنی تخلیق ِ اول کو ہدایت کی آخری روشنی عطا فرما کر ظلمتوں میں گری انسانیت کو معراج انسانیت سے آشنا کرانے کیلئے جزیرہ نما عرب میں معبوث فرمایا۔ یا رسولؐ اللہ گو آپؐ نے نبوت کا اعلان چالیس برس کی عمر میں کیا لیکن آپؐ اُس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی ہوا اور مٹی کے درمیان تھے۔ آپؐ کو صداقت و امانت کے دو معجزے اعلان نبوت سے پہلے عطا فرمائے گئے جو آج دنیا کے ہر معاشرے کی اخلاقی اساس ہیں۔ آپؐ نے اپنی ترسٹھ سالہ دنیاوی حیات میں کبھی کسی کے ساتھ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ کے بدترین مخالف اور دشمنِ جاں آپ ؐکے کردار کے معتبر ترین شہادتی تھے۔ وہ آپؐ کی ربی قوتوں کے انکاری ہونے کے باوجود اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے، اپنے فیصلے آپؐ سے کراتے۔ یہاں تک کہ آپؐ کی غیر موجودگی میں آپؐ کے کردار پر قربان ہوا کرتے تھے۔ یا خاتم النبین ؐ آپؐ وہ روشن چراغ ہیں جو بعد از قیامت بھی حوض ِ کوثر سے لے کر تا ابد روشن رہیں گے۔ آپؐ حق کی وہ صبح ہیں جس کے اُجالے سے کائنات کا ہر معاشرہ مستفید ہوا ہے خواہ وہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ یا نبیؐ اللہ آپؐ نے انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرا کر اللہ کی توحید اور اپنی رسالت پر یکجا کیا۔ یا مزمل آپؐ نے بے رحم قاتلوں کو درگزر اور معاف کرنے والا بنا دیا، سود خوروں کو سود سے نفرت کرا دی، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والوں کو بیٹیوں کی تعظیم کرنے اور انہیں وارثت میں حصہ دینے کا قرآنی پابند کیا۔ یا وجہئ کائنات آپؐ نے زمین کو رب کی ملکیت قرار دیا اور اللہ کا پیغام: ”اے نبی ؐ! یہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو ان سے کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے۔“ پہنچا کر زمین سے پیدا ہونے والے ہر نفع میں دوسرے انسانوں کو حصہ دار بنا دیا۔ یا فاتحؐ! آپؐ نے بدترین شکست خوردہ دشمنوں کو معاف فرما کر انسانوں کی جنگی تاریخ کے قیدیوں کیلئے معافی کی نئی تاریخ لکھوائی۔ یا شاہدؐ آپ کا کہا ایسا سچ تھا کہ آپ ؐکے اصحاب آپ ؐسے تصدیق کیے بغیر ہی اُس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے تھے۔ آپ ؐنے اپنی تمام عمر میں جو کہا وہ سچ تھا اور سچ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آپؐ نے نئے انسانی مزاجوں اور رویوں کی اجتماعی بنیاد رکھی جو آپ ؐسے پہلے انسانی تاریخ میں انفرادی طور پر صرف انبیاء علیہ اسلام میں موجود تھے۔ یا امیؐ! آپؐ کا کہا علم کی ابتدا بھی تھا اور اِس کی انتہا بھی۔ انسانی علوم کے تمام سرچشموں نے اُسی حیاتِ احمدؐ سے پھوٹے انسانی ذہنوں کو منور اور بنجر سوچوں کو سیراب کیا۔ آپؐ نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور علم کی راہ میں آنے والی صعوبتوں کو انسانی زندگی کی معراج قرار دیا۔ آپ ؐنے عالم کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے افضل ہونے کا پیغام دے کر انسانی مسائل کو علم کی روشنی میں حل کرنے کا لافانی پیغام بنی نوع انسان تک پہنچایا جو آج ہر ترقی یافتہ قوم کی زندگی میں آسائشوں کی واحد وجہ ہے۔ یا مجتبی ؐ!آپ ؐ اللہ رب ذوالجلال کے انتخاب کی
معراجِ اول و آخر ہیں۔ میرے ماں باپ، اولاد و متاع حیات آپ ؐ پر قربان کے آپ ؐنے انسانوں کو برابری کا درجہ دے کر کالے اور گورے، عربی اور عجمی کی تفریق ختم کر دی۔ آپ ؐنے تقویٰ کو قرب الٰہ ی اور شفاعت مصطفیؐ کا معیار مقرر کر دیا جو آج بھی آپ ؐ کے حقیقی امتیوں کی زندگیوں کے فیصلوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یا حاشرؐ! آپؐ نے زندگی گزارنے کیلئے دولت کو تقسیم اور انسانوں کو جمع کرنے کے سنہری اصول سے انسانوں کو روشناس کرایا۔ آپ ؐ نے روز قیامت اپنی امت کے غرباء اور مساکین کے ساتھ اٹھنے کی دعا فرمائی۔ یا ناصرؐ! آپؐ نے بے کسوں اور ضرورت مندوں کی نہ صرف مدد فرمائی بلکہ اسے قیامت تک کیلئے آپ ؐکو آخری نبی ؐ ماننے والوں کی نیابتی ذمہ داری میں شامل کر کے قیامت تک کیلئے، مجبور اور لاچار امتیوں کو محفوظ فرما دیا۔ یا ولیؐ! آپؐ کی دوستی بے مثل، لافانی اور کائنات کی سب سے بہترین دوستی ہے جس نے پہلے سے موجود دوستی کے معیارات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ آپ ؐ نے احترام آدمیت کو اللہ سے دوستی اور انسان دشمنی کو اللہ سے دشمنی قرار دیا جو ایک افضل و اعلیٰ معاشرے کو مضبوط
ترین بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ یا محمدؐ! آپؐ کا پیغام اپنے عہد کی سپر پاورز تک بے خوف و خطر پہنچا، آپؐ کے نظام عدل کے باٹ دوستوں اور دشمنوں کیلئے یکساں رہے۔ آپؐ کی نعت، آپؐ کی بات، آپ ؐ کی ذات، ہر دم، ہر لمحہ، ہر،سانس کے ساتھ فکر مصطفیؐ کا چراغ روشن کرتی ہے۔ یا گنبدِ خضریٰ کے مکیں ؐ! آپ پر کروڑوں درود سلام کہ اللہ اور اُس کے فرشتے آپؐ پر ہر دم درود و سلام بھیجتے ہیں۔
اے وجہئ کائناتؐ! میری مدد فرمائیے۔ میں مشکل میں ہوں، میں نے جو سوچا، جو پڑھا، جو چشم تصور سے دیکھا، اُسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپؐ کے نام پر جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ آپؐ غریبوں اور مفلسوں کا آخری سہارا ہیں۔ آپؐ نے ایک عظیم الشان اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی جس کے بطن سے ریاست مدینہ نے جنم لیا۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! قرآن نے آپؐ کی اطاعت کو حکمران کی اطاعت سے الگ رکھا ہے۔ ریاست کا ایک جغرافیہ ہوتا ہے، آپ ؐ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ ریاست کی ایک آبادی ہوتی ہے آپؐ انسان تو انسان کائنات کی ہر مخلوق کے پیغمبر ہیں۔ میرے نزدیک جہاں تک اللہ رب العزت کی خدائی ہے وہاں تک آپ ؐ کی رسالت ہے۔ یہ ساری کائنات ہی آپ ؐ کی ریاست ہے جس پر اللہ کی حاکمیت قائم ہے۔ یا رسولؐ اللہ! ہم اپنے آپ سے بے خبر ہو سکتے ہیں لیکن آپؐ کی حیات طیبہ سے بے خبر نہیں۔ ہمیں دنیا کی کوئی شے آپ ؐ کی ناموس سے زیادہ عزیز نہیں۔ میں آج بھی چشم تصور سے اُس عظیم اسلامی انقلاب کو دیکھتا ہوں جو آپ ؐکے علم تلے جزیرہ نما عرب میں برپا ہوا تو دل و دماغ اُس عظیم اسوہئ حسنہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ ربیع الاول کے بابرکت مہینے میں گنبدِ خضریٰ کے مکین ؐ سے لرزتے ہاتھوں اورپُرنم آنکھوں سے درخواست ہے کہ ان اذیت ناک مناظر اور تکلیف دہ حالات میں اپنی امت کے اِن گناہگاروں پررحم فرمائیں کہ بے کسوں کا پہلا اور آخری آسرا درِ مصطفےٰؐ کے علاوہ کوئی نہیں۔