برصغیر میں مختلف تہذیبوں پر مبنی تہذیب آزادی سے پہلے بالکل مختلف کہانی تھی امرتا پریتم اپنے بارے میں بتاتی ہیں کہ ان کو اس مذہب کے آدمی سے عشق ہوا جو ہمارے (ہندوؤں) کے گھر یا برتنوں میں پانی نہیں پی سکتے تھے۔ یہی رویہ تھا جو گورے کی غلامی کے بعد بنیے کی غلامی کے خوف اور تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ ہندو کا تعصب، سکھ کی دھونس تو شاید اتنی تباہ کن نہ تھی جو آزادی کے بعد ہم نے مسلمانوں میں سے اپنے دشمن ڈھونڈ لیے۔ قومیتوں، زبانوں، فرقوں، مسلکوں کے نام پر دشمنی کے حوالے سے ایسے خود کفیل ہوئے کہ بھارت یا ہندوستان کی دشمنی بہت پیچھے رہ گئی باہمی حق تلفی اور منافرت نے ملک دو لخت کر دیا۔ ہمارے مزاج آئین، قانون اور انصاف پر ہاوی ہو گئے پھر باقی ماندہ موجودہ وطن عزیز، ذرا اپنی قابل فخر معاشرت پر توجہ فرمائیے۔ کوئی رشتہ، کوئی دوست چاہے سیاسی، سماجی، مسلکی حوالہ اور بنیاد ہو کامریڈ نہیں، سانپوں کا سنگ ثابت ہوا۔
لڑکپن میں شہر میں دوستوں کی ٹولیاں ہوا کرتی تھیں ایک دوست نے کہا کہ فلاں لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، دوستی اور محفل چاہتے ہیں، بے اختیار ہی اس کو جواب دے دیا کہ میں اپنے دشمنوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ حیران رہ گیا کہ یہ میں نے کیا بات کر دی۔ شہر میں جتنے بھی واقعات تھے لڑائی جھگڑے، سیاسی دھڑے بندی، مسلکی اور مذہبی گروہ بندی ایک سے وابستہ ہو نے کے بعد مختلف دھڑوں میں بٹتے چلے گئے۔ کیونکہ ہمیں تو دشمن چننا تھا، ہندو اور بنگالی کی تو سمجھ آتی تھی کہ بڑے لوگوں کا کام ہے مگر یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں نے ہی ثابت کیا کہ دراصل یہ دوستی اور ہم آہنگی نہیں تھی، سانپوں کا سنگ تھا۔
ملک کی کوئی سیاسی جماعت ہو یا ادارہ، بیوروکریسی ہو یا مذہبی طبقہ آج سب دست و گریبان ہیں اور جب آپ ماضی میں جھانکیں گے تو یہ ماضی کے دوست ہی نکلیں گے، وقت، مفاد، لالچ اور مفاد پرستی نے اس سنگت کو سانپوں کا سنگ ثابت کیا۔ اس سنگت سے برادری اور خاندان بھی محفوظ نہ رہے۔ بڑے ڈھول ڈھمکے سے آنے والا دولہا اور باجوں کے شور میں آنے والی دلہنیں سال بھر بھی نہیں گزرتا کہ گھر سے سانپ نکل آئے تو اتنی تشویش نہیں ہوتی جو تشویش نئے رشتوں یا پرانے رشتوں کے آستین سے نکلنے پر ہوتی ہے۔
دوستوں سے اس قدر تسلی ہوتی ہے کہ فرصت کے لمحوں میں تنہائی ہی بہترین دوست ثابت ہوا کرتی ہے خود کلامی کی جبلت ایک نعمت محسوس ہوتی جو دراصل بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی شروعات اور اس کا بکھرنا، کسی مذہبی جماعت کا بننا اور پھر اس کا ٹکڑوں میں بٹنا۔ کسی خاندان کا چٹان نظر آنا اور پھر اس چٹان کا ریزہ ریزہ ہونا یہ دراصل انسانوں کا انسانوں نہیں سانپوں کی سنگت کا سلسلہ ہے۔
کوئی سرکاری آفیسر، سیاسی رہنما، ادارے کا سربراہ ہو یا کوئی اور بڑا نام اس تک پہنچتے پہنچتے انسان کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ اور کچھ کرے نہ کرے انا کی قبر بنا چھوڑتا ہے۔ چودھری یار محمد دریانہ سپرنٹنڈنٹ جیل تھے جناب بھٹو صاحب کو جب شہید کیا گیا پھانسی دی گئی تو اس وقت سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد تھے۔ ان کا سسر چودھری مانک بوصال ایک بڑا اور نامور زمیندار تھا ان کا ایک دوست اپنے بیٹوں اور پوتوں سمیت ذاتی دشمنی میں جیل آ گیا، قیدی یا حوالاتی تھا۔ چودھری مانک بوصال نے اپنے دوست سے کہا کہ کوئی کام ہو تو یار محمد سے کہہ لیجئے گا میں نے اس کو آپ کا بتا دیا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل جب دورے پر جیل کے اندر ہوتے ہیں تو پھر حوالاتی اور قیدی سوال کرتے ہیں اپنی تکلیف بیان کرتے ہیں۔ چودھری یار محمد سپرنٹنڈنٹ جیل اپنے سسر کے دوست کے پاس خود گئے اور کہا کہ میاں جی کوئی تکلیف ہو، ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ اس نے اپنے خاص انداز اور لہجے میں کہا کہ ”مُڑ تکلیف تے کوئی نئیں آ، بس تیری کتیک ای ساہ نئیں لین دیندی“۔ تکلیف کی تو کوئی بات نہیں یہ تیرے چھوٹے موٹے ماتحت ہی سانس نہیں لینے دیتے۔ آج کوئی بھی بڑا عہدیدار ہو، وہ شاید اچھا انسان ہو مگر اس کے ماتحت اتنا تھکا دیں گے کہ انسان اس ملاقات کا ارادہ ہی ترک کر دے۔
میں نے اپنی شعوری زندگی میں وطن عزیز میں سب سے زیادہ مقدمات لوگوں کے دوسرے لوگوں کو دوست بنا کر پیسے ڈکار جانا، دبا لینا، مار جانا باقاعدہ کاروبار دیکھا۔ کسی کی زمین جائیداد پر قبضہ معمول کی باتیں ہیں۔ جب کوئی تفصیل پوچھو تو پتہ چلے گا کہ پہلے وہ دوست تھے یا رشتے دار تھے گویا سانپوں کا سنگ تھا جو واپس لوٹے تو وقت گزر چکا تھا۔
وطن عزیزکے بڑے سیاست دانوں کے گرد پائے جانے والے لوگ آج ان کے مخالف ہیں اداروں کے سٹیک ہولڈرز کی قربتوں سے پہچانے جانے والے آج سازشوں میں ملوث ہیں۔ ذرا معاشرت پر غور فرمائیے کہ اس قدر دھوکہ، فریب، خودغرضی کہ آپ کو کرہ ارض پر کسی دوسری معاشرت نظر نہیں آئے گی۔
ایک دفعہ میں بیمار پڑ گیا دو تین ہفتے گھر پر آرام کرنا پڑا۔ رمضان المبارک تھا میں ٹی وی لگا لیتا ملک کے تمام مکاتب فکر کے علما سارا دن ٹی وی چینلز پر اپنے مسلکی اور مذہبی مکتبہ فکر کے وعظ کرتے کہ جھوٹ نہ بولیں، کسی کا حق نہ کھائیں، والدین کا خیال رکھیں، ہمسایوں کے حقوق، غربا مساکین کے حقوق، بدزبانی، جھوٹ، وعدہ خلافی گویا کوئی ایسا اخلاقی پہلو نہ تھا جس پر وعظ اور واقعات نہ سناتے ہوں مگر میں نے سوچا اگر ان علما ذاکرین اور مفکرین کو یورپ، امریکہ، سویڈن، سیکنڈے نیوین ممالک میں لے جائیں انہیں واعظ کا کہیں تو یہ کیا بات کریں گے، جھوٹ، غیب، فراڈ وہ سوچتے نہیں۔ رہی بات جنسی تعلقات کی اور شراب جوئے وغیرہ کی اس لحاظ سے بھی ہم ان سے آگے ہیں تو یہ کیا واعظ کریں ان کے پاس نصیحت کرنے کی تو کوئی بات نہیں ہے۔
بدنیتی، خود غرضی، مفاد پرستی، خود ستائشی، مذہب فروشی، نظریہ فروشی، بیانیہ فروشی جہاں عام ہو وہاں تو ان کی بات چل گئی کیونکہ یہ سانپوں کا سنگ ہے انسانوں کے ساتھ انسانوں کا سنگ نہیں۔ یہ شکاری ہیں اور انسان جب انسان کا شکار کرنے پر آتا ہے پھر درندوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے یہ صورت گری ہمارے ہاں ہماری موجودہ معاشرت کی کر دی گئی رشتے داری اور دوستی کے چند سال بعد جو آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے یہ تو سانپوں کا سنگ تھا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سماج کسی نظام پر قائم نہیں آئین قانون اصول پر نہیں کھڑا، طاقتور اور فراڈیئے کی مرضی پر کھڑا ہے۔ جس کو تقدیر کا نام دے کر صبر شکر کر لیا جاتا ہے ہمارے ہاں تقدیر آئین قانون اور سماج کے مروجہ اصول کا درجہ رکھتی ہے۔
سانپوں کے سنگ سے بہتر ہے، تنہائی کو دوست بنا لیا جائے یا پھر حقیقی تقدیر کے مخالف چلنے سے باز رہا جائے۔ کیونکہ انسان کے بس میں اتنا ہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے بس تسلیم کر لے البتہ جب کبھی کسی نظام اخلاقیات، روایات کی حکمرانی ہو گی تو خیال بھی اسی کے سانچے میں ڈھل جائیں گے ابھی تو جس کی کہانی سنو، دیکھو، پڑھو آپ کو سانپوں کا سنگ دکھائی دے گا جیسے آج کل چودھری پرویز الٰہی عمران خان علیم خان کے لیے ثابت ہو رہے ہیں، بابر اعوان زرداری صاحب کے لیے، شیخ رشید و ہمنوا اپنے سابقہ ساتھیوں اور التجاؤں کے لیے کیا نام گنواؤں کیا سلیقہ گنواؤں، سب سانپوں کا سنگ ہے۔