علامہ اقبالؒ کے مطابق مسلمانوں کی سائنس خداآشناتھی لیکن اہل مغرب جس طرح الحاد و زندیقیت اورلامذہبیت کاشکارہیں اسی طرح ان کی سائنس بھی خدابیزاری سے آلودہ ہے۔ مغربی دانشورسائنسی ترقیات سے مرعوب ہوئے لیکن مشرقی مفکرین اس طرح کے ذہنی دباؤمیں نہیں آئے اورخاص طورپراقبال ؒنے تعلیمات قرآن کے دائرے میں رہتے ہوئے ذہنی آزادی کابھرم قائم رکھا۔
اقبالؒ کے تصور تہذیب کا مرکزی نقطہ یہی مساوی حقوق انسانی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا۔ وہ اس حدیث نبویؐ سے جو ’’الخق عیال اللہ‘‘ کی غیر معمولی معنویت کے حامل لفظوں کی صورت میں موجود ہے، بخوبی آگاہ ہیں۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں محکمات عالم قرآنی کے زیر عنوان حکمت قرآن اور تخلیق آدم کی معنویت کو نمایاں کرتے ہوئے انہوں نے ’’احترام آدمیت‘‘ کو اصل تہذیب قرار دیا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا جوقوم آفاقی فیضان سے محروم ہواس کے کمالات کی حد برق و بخارات تک ہی محدودہوتی ہے۔ علامہؒ کوایک سوسال پہلے اندازہ ہوگیاتھاکہ مغربی تہذیب کی ترقی انسانیت کی تباہی کاباعث بن کرقبیلہ بنی نوع انسان کے لیے وبال جان بن جائے گی۔ مغربی تہذیب کی سب سے بڑی لعنت سودی نظام معیشت ہے۔مغرب کے نام سے واضح ہے کہ اس مقام پران کی تہذیب غروب ہوجانے والی ہے۔ علامہ کے نزدیک مغربی تہذیب کے کچھ شعائرحمیدہ دراصل اسلامی تعلیمات کی ہی ترقی یافتہ شکل ہیں۔
دنیامیں حضرت آدم کی تہذیب اور ابلیس کی تہذیب ہردورمیں موجودرہے ہیں۔اقبالؒ نے اپنے شعری و نثری آثار میں نہ صرف اپنے تصورات تہذیب و ثقافت کی نہایت خوبی سے وضاحت کی ہے بلکہ اپنی معاصر حاوی مغربی تہذیب کے خدوخال بھی نمایاں کرکے اس کے بعض مثبت پہلوؤں کے دوش بدوش اس کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کیا ہے۔ مزید برآں انہوں نے اس تہذیب کو بھی ایک زندہ، روشن اور انسانیت نواز تہذیب کے طور پر بڑے اعتماد سے پیش کیا ہے جسے مسلم تہذیب کا نام دیا جاتا ہے اور جس کی برکات و ثمرات سے پوری نوع انسانی فیض یاب ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوسکتی ہے۔
تہذیبوں، ان کے عناصر ترکیبی اور ان کے عروج و زوال کے اسباب پر اقبالؒ اپنے ابتدائی نثری و شعری آثار سے لے کر اپنے آخری شعری و فکری کارناموں تک اپنے خیالات کی وضاحت کرتے رہے۔ حیدر آباد کے گنبدان قطب شاہی پر 1910ء میں لکھی گئی بانگ درا کی نظم ’’گورستان شاہی‘‘ سے لے کر ارمغان حجاز کی ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ تک اور 1904ء میں لکھے گئے مضمون ’’قومی زندگی‘‘ سے لے کر "The Spirit of Muslim Culture" اور 1938ء میں لاہور ریڈیو سے نشر ہونے والے اپنے آخری پیغام تک اقبال افراد اور تہذیبوں کی تقدیروں، برگزیدہ اور برتر طرز زندگی اور اعلیٰ تہذیبوں کے مقاصد اور اعمال کو آئینہ کرتے رہے۔ ’’گورستان شاہی‘‘ کو دیکھ کر انہوں نے ہماری عبرت آموزی کا سامان پیدا کیا ۔
علامہ اقبالؒ کی خواہش یہ تھی کہ علم و فن یورپ سے حاصل کرو لیکن روحانیت اور اخلاقیات کا جو سرمایہ تم کو اسلام نے عطا کیا ہے اس بیش بہا وراثت کی قدر کرو تاکہ تم شر ق و غرب دونوں سے افضل اور مکمل تہزیب و تمدن پیدا کر سکو۔ مشرق و مغرب کے متعلق اپنے نظریات کو اپنے کلام میں منتشر کرنے کے علاوہ اقبال ؒنے جاوید نامہ میں اس بارے میں اپنے مخصوص افکار کو ان ا شعار میں جمع کر دیا ہے۔ مسلمانوں کو یورپ کے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر اسلام کی شریعت ایک صحت مندانہ معاشرت اور سیاست پیدا کر سکتی ہے۔ حقیقی ترقی کی تعمیر اسلام کی بنیادوں پر ہی ہو سکتی ہے مگر اسلام اور اس کی شریعت میں کوئی جامد شے نہیں تغیر حالات کے ساتھ وہ عروج کی نئی راہیں سمجھ اسکتی ہے۔ قرآن کی تعلیم میں کئی کئی تہذیبوں اور تمدنوں کی تعمیر کے اساسی عناصر مل سکتے ہیں۔ روح اسلامی کی کسی ایک قالب کے ساتھ دوامی وابستگی نہیں رہتی۔
قرآن حکیم میں ہے کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل و تاخیر نہیں ہو سکتی۔لیکن جب علامہ اقبالؒ کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی یہ غلط ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام توساری دنیا کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہو سکتا ہے؟ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہو گئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ و بار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال ؒاپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی