واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ہم داخلی امن کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زلمے خلیل زاد نے یہ بات یونیورسٹی آف شکاگو کے پیئرسن انسٹیٹیوٹ میں دوحہ سے بذریعہ ویڈیو لنک ایک فورم سے خطاب میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کابل اور طالبان معاہدے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ پاکستان کے لیے اقتصادی مراعات دیکھ رہے ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل نے کہا کہ ایسی معاشی وجوہات ہیں جو خطے کے لیے تبدیلی کا باعث ہوں گی لیکن اس کے لیے افغانستان میں امن آنا ضروری ہے۔ زلمے خلیل زاد نے فورم سے خطاب میں افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارتکاری اور مدد کو سراہا اور تعریف کی۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کیلئے امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے 2 اہم نکات میں غیر ملکی افواج کا افغان سرزمین سے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کا آغاز تھا جس کا آغاز 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو چکا ہے۔
دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر امن میں اصل رکاوٹ بھارت جیسے امن دشمنوں کا کردار ہے، جنہوں نے ہمیشہ خطے کاامن تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ صدر مملکت نے یہ بات ایک نجی چینل سے گفتگو میں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امن دشمنوں نے ہمیشہ سے خطے کا امن تباہ کرنے کے درپے رہے ہیں۔ افغانستان میں امن واستحکام کی راہ میں بھی اصل رکاوٹ بھارت جیسے امن دشمنوں کا کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں مظالم ہوں یا اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، بھارت کا کردار ہمیشہ منفی رہا۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ بھارت نے مختلف بلاکس اور فورموں میں جا کر خطے میں اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ گوادر بندرگاہ کی ترقی سے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر روابط کی سہولت میسر آئے گی۔ پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو پہلے ہی گوادر منتقل کر چکا ہے اور افغانستان میں امن کی بحالی کے بعدعلاقائی تجارت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محض اہم تذویراتی محل وقوع کو اجاگر کرنے کی بجائے پاکستان کو اہم اقتصادی مرکز کے طور پر فروغ دینا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔ ایران، افغانستان، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت پورے خطے کے ساتھ زمینی راستے اور تجارتی روابط ہونے کی وجہ سے پاکستان گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین سے تجارت کا اہم راستہ ہے۔