سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کی مجرمہ آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔سماعت کے دوران آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ 14 جون 2009 کا ہے جو اسی سال 16 جون کو رپورٹ ہوا۔انہوں نے کہا کہ ننکانہ صاحب کے گاؤں کٹاں والا کے امام مسجد نے واقعہ درج کرایا، جبکہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ نے توہین مذہب کا اقرار کیا۔
چیف جسٹس نے آسیہ بی بی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ریکارڈ پر ایسی چیزیں ہیں۔وکیل نے کہا کہ ڈی سی او، ڈی پی او سے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت نہیں لی گئی، جبکہ امام مسجد نے کہا کہ گاؤں کے لوگوں نے آسیہ بی بی کو مارنے کی کوشش نہیں کی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسجد براہ راہست گواہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امام مسجد کے بیان کے مطابق 5 مرلے کے مکان میں پنچایت ہوئی، کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے۔وکیل سیف الملوک نے بتایا کہ آسیہ اور دو مسلم خواتین میں مباحثہ ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آسیہ کے برتن سے پانی پینے سے انکار کردیا تھا، تاہم مسلم خواتین عاصمہ اور اسما کے بیانات میں تضاد ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے ان تضادات پر جرح کیوں نہ کی۔
انہوں نے کہا کہ گواہوں نے آسیہ بی بی کے توہین رسالت پر گواہی نہیں دی بلکہ فالسے کے کھیت میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیا۔وکیل سیف الملوک کا کہنا تھا کہ بیانات کے مطابق فالسے کے کھیت کے مالک کے سامنے آسیہ نے اعتراف کیا، تمام گواہان پورا زور لگا رہے ہیں کہ آسیہ نہ بچے حالانکہ چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ ثابت ہوجائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ واقعے کی تفتیش ناقص اور بدنیتی پر مبنی تھی، ایسی صورت میں 295 'سی' کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اے ایس آئی کی تفتیش پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔وکیل نے جواب دیا کہ آسیہ کے مطابق پولیس نے غلط کیس بنایا ہے۔شکایت کنندہ قاری اسلام کے وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری کا کہنا تھا کہ آسیہ نے نبی آخرالزماں ﷺ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔
آسیہ بی بی کے وکیل نے کہا کہ شہادتوں میں نہیں آیا کہ آسیہ نے قرآن کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں، توہین آمیز الفاظ تو استعمال ہوئے ہی نہیں، یہ وہی الفاظ ہیں جو عیسائی عام طور پر استعمال کرتے ہیں، آسیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ توہین کرنے کا تصور نہیں کر سکتیں جبکہ وہ دل سے اسلامی تعلیمات اور نبی آخرازماںﷺ کی عزت کرتی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ممکن ہے جس وکیل نے درخواست بنائی اس نے یہ الفاظ استعمال کیے۔وکیل سیف الملوک کا کہنا تھا کہ آسیہ کا صرف دو خواتین کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا، اس جھگڑے کے دوران سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایسا کیا ہوا کہ جھگڑا بھی آپ کے ساتھ ہوا، سخت الفاظ بھی آپ کے خلاف استعمال ہوئے اور پھر مقدمہ بھی آپ کے خلاف ہی بنایا گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آسیہ بی بی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے درخواست گزار قاری اسلام کسی سے استعمال ہو رہے ہوں، وہ فرنٹ مین ہوں اور پیچھے کوئی اور ہو۔وکیل نے کہا کہ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ گواہ جھوٹ بول رہے ہیں۔وکیل غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز کو بین الاقوامی شہرت ملتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ توہین مذہب گھناؤنا جرم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں۔انہوں نے شکایت کنندہ کے وکیل کو شہادتوں سے ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا ہے جبکہ ہمیں بھڑکانے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا توہین مذہب 'حد' کے قانون میں آتا ہے؟
آسیہ بی بی کے وکیل نے جواب دیا جی آتا ہے، ایف آئی آر میں ان پڑھ خاتون کو مبلغہ کہا گیا، اس سے بدنیتی معلوم ہوتی ہے۔قاری اسلام کے وکیل کا کہنا تھا کہ اپیل 11 دن تاخیر سے دائر کی گئی، وقوعہ کا کہیں انکار نہیں کیا گیا جبکہ ملزمہ اور گواہان کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملزمہ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں تھا، بعد میں وہ خدائی فوجدار بن گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے بیانات میں بہت تضاد ہے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلہ محفوظ کر رہے ہیں لیکن اس پر میڈیا میں تبصرے نہیں ہونے چاہئیں۔
آسیہ بی بی کیس:
واضح رہے کہ آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔آسیہ بی بی پر الزام تھا کہ انہوں نے جون 2009 میں ایک خاتون سے جھگڑے کے دوران حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی شان میں توہین کی تھی۔
واقعے کے مطابق، آسیہ نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔واقعے کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔
آسیہ کو نومبر 2010 میں جرم ثابت ہونے پر عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف مختلف عدالتوں میں متعدد اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں جس کے علاوہ 2016 میں اکتوبر کے مہینے میں سپریم کورٹ نے بھی ان کی سزا برقرار رکھی تھی۔خیال رہے کہ آسیہ بی بی کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں دی جانے والی یہ پہلی سزا ہوگی۔