پاک چین تعلقات ضروری، مگر ”تھنک ٹینک“بنایا جائے!

پاک چین تعلقات ضروری، مگر ”تھنک ٹینک“بنایا جائے!

پاکستان کا یہ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے کہ وہ کسی ایک ”بلاک“ میں نہیں بیٹھتا، کبھی اس کا جھکاؤ چین کی طرف، کبھی روس کی طرف اور کبھی امریکا کی طرف ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنا قبلہ متعین کر رکھا ہے، جیسے انگلینڈ،یورپ، سعودی عرب و متحدہ عرب امارات عرصہ دراز سے امریکی بلاک میں موجود ہیں، وہ امریکا سے فائدے بھی لے رہے ہیں، جبکہ امریکا بھی ان ممالک سے فائدے لے رہا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہم ہمیشہ کبھی پاک امریکا،کبھی پاک چین، کبھی پاک بھارت، کبھی پاک یورپ،کبھی پاک افغان، کبھی پاک ایران، کبھی پاک روس اورکبھی پاک سعودیہ وغیرہ کے تعلقات کے گیت گاتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے ہم نے کبھی کسی ملک کے ساتھ تعلقات میں ”تسلسل“ نہیں رہنے دیا۔ کبھی ہم روس کی جھولی میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی سعودیہ امارات کے ذریعے امریکا کے ساتھ  تو کبھی ہم چائنہ کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھا کر توڑ بھی دیتے ہیں اور اکثر اپنے اس اقدام سے یا تو مکر جاتے ہیں یا اپنی ایسی ایسی مجبوریاں بیان کرتے ہیں کہ آپکا عاشق آپ کا چہرے کے بدلتے تیور ہی دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جی ہاں آج ہم بات کریں گے چین کی! کیوں کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کس قدر مثالی رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلقات باتوں سے نکل کر جب عملی اقدامات کی طرف گئے تو پھر دونوں اطراف کے ”کھلاڑی“ کھل کر سامنے آئے۔ یعنی اسے ایسے بیان کرتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات پنجابی کی کہاوت سے مزید elaborateہوں گے کہ ”راہ پیا جانے، یا واہ پیا جانے“۔ (ساتھ سفر کرنے والا آپ کو جانتا ہے یا جس کے ساتھ لین دین یا معاملات ہوں وہ آپ کو جانتا ہے)۔یعنی چین کے پاکستان کے ساتھ پہلے تعلقات سوکھے سوکھے اور بیانات کی حد تک تھے مگر جیسے ہی سی پیک شروع ہوا۔ ان تعلقات میں خاصی گرمجوشی دیکھی گئی۔ 
اوراب نئی حکومت آنے کے بعد گرمجوشی میں مزید اضافہ  ہوچکا ہے۔ جسکی تازہ مثال آپ یہ بھی لے لیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین و سعودی عرب ہے۔ ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے والے ان دوست ممالک نے حالیہ دوروں میں وزیر اعظم شہباز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جون 2023 تک اسلام آباد کی مالی ضروریات کا خیال رکھیں گے۔دونوں 
نے پاکستان کو 13 ارب ڈالر کا مالیاتی پیکیج فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس میں خودمختار قرضوں کے ذخائر کا رول اوور، اضافی رول اوور، کمرشل قرضے، اضافی ایس ڈبلیو اے پی ایس اور آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت میں اضافہ شامل ہے۔13ارب ڈالر کے متوقع مالی پیکیج میں سے چین اور سعودی عرب نے رواں مالی سال (2022-23)کے لیے بالترتیب 8.8 ارب ڈالر اور 4.2 ارب ڈالر کی اضافی رقم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دونوں مالیاتی پیکیج ملنے سے پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہاراملے گا۔ خیال رہے کہ اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس8.9 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں۔ چین آنے ولے دنوں میں 4ارب ڈالر کے خودمختار رول اوور ڈپازٹس کو رول اوور کردے گا نیز 3.3 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے بھی فراہم کیے جائیں گے۔ رواں مالی سال کے لیے مجموعی چینی پیکیج 8.8 بلین ڈالر تک پہنچ جانے کی قوی امید ہے۔ دونوں ممالک نے سابقہ دور حکومت میں سی پیک پر رکے ہوئے کام دوبارہ شروع کرنے پر بھی اتفاق کیاہے۔ ادھرسعودی عرب 11 سے 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے گوادر میں پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی تعمیر کرے گا۔ مشکل وقت میں چین اور سعودی عرب کا یہ تعاون بلاشبہ انتہائی قابل قدر ہے اور پوری پاکستانی قوم اس پر تہہ دل سے ان کی ممنون ہے۔
لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان معاشی پالیسیوں میں تسلسل رکھنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں، حالانکہ اس حوالے سے ملک میں ایک ایسا ”تھنک ٹینک“ ہونا چاہیے جو حکومتوں کے بدلنے کے باوجود قومی و معاشی پالیسیوں پر نظر رکھے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ نئی آنے والی حکومت اْن پالیسیوں میں رخنہ ڈالے، یا مخالفت برائے مخالفت کی وجہ سے کسی منصوبے کو سبوتاژ کرے۔کیوں کہ ہمارے 90 فیصد بڑے بڑے پراجیکٹ حکومت کے جانے کے بعد پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جس کا نقصان کسی حکمران کو نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو اْٹھانا پڑتا ہے۔ اور پھر ”تھنک ٹینک“ یہ بھی فیصلہ کرے کہ پاکستان کو کس بلاک میں رہنا چاہیے اور کس ملک کے ساتھ کس حد تک تعلقات بڑھانے یا خراب کرنے چاہیے۔
اور پھر یہ بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ملک میں کونسا معاشی ماڈل رائج کرنا چاہیے۔اور رہی بات چین کی تو پاکستان چین کا ایسا دوست ہے جسے روٹی چاہیے اور ساتھ بندوق بھی تاکہ روٹی جھپٹنے والے جانوروں سے بچا جا سکے۔چین نے پاکستان کو معاشی،دفاعی اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے، دونوں ملک ایک دوسرے کو گہرا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی قرار دیتے ہیں۔چین پاکستان کو کئی طرح کے جدید ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔زیادہ اچھی بات یہ کہ اس عمل میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی شامل ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی چینی ہیں۔2013ء میں چینی باشندوں کی تعداد 20ہزار تھی 2018ء میں یہ تعداد 60ہزار ہو گئی۔تازہ اندازے کے مطابق اب تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔پاکستانی باشندے بھی چین میں کام کر سکتے ہیں۔چینی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے بعد کئی طرح کے تحقیقی کام کئے جا سکتے ہیں۔آئی ٹی کمپنیوں میں سافٹ ویئر کوڈنگ کا کام مل سکتا ہے، بین الاقوامی بینکوں میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا کام کیا جا سکتا ہے۔ نومبر 2021ء کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان سے گئے 28ہزار طالب علم چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 
اور پھر چین کے ساتھ تعلقات بنانے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے وہ ہر اچھے برے حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اندازہ ہے کہ نئے معاہدوں سے اس مرحلے میں مزید 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔دس ہزار سے زائد وہ کاروبار دوبارہ کھل سکیں گے جو بند کر دیے گئے اور جن دو کروڑ افراد کا روزگار متاثر ہوا ان کو روزگار مل سکے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک کے بڑے حصے میں امن و امان کی خراب حالت ہے۔آدھے سے زیادہ ملک سکیورٹی مسائل کا شکار ہو تو مالیاتی بوجھ باقی آدھے حصے پر آ جاتا ہے۔قبائلی اضلاع میں صنعت، لائیو سٹاک اور تجارتی منصوبوں کو اب تک شروع نہیں کیا جا سکا۔بلوچستان کا بہت بڑا رقبہ ایسا ہے جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ہمیں چین کو مزید قائل کرنے اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ وہاں سرمایہ کاری کرے۔ اور پاکستان کو معاشی بھنور سے نکالنے میں مدد کرے تاکہ پاکستان بھی چین کی طرز پر ترقی کرے اور ایک دن دنیا کی ضرورت بن جائے۔ بہرکیف اْمید کی جا سکتی ہے کہ یہ دورہ چین پاکستان کے لیے خوش آئند اور ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھلنے کا باعث بنے، اور وزیرا عظم کو بہر صورت یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ حالیہ دورہ کی پاک چین تعلقات میں اپ گریڈیشن کی یہ ایک اچھی کوشش ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے!لیکن ان سب باتوں کے لیے ضروری بات یہ ہے کہ ”تھنک ٹینک“ فوری قائم کیا جانا چاہیے تاکہ ہم کئی مسائل سے بچ سکیں!

مصنف کے بارے میں