اسلام آباد:قومی سلامتی کمیٹی کے اہم پارلیمانی اجلا س میں عسکری حکام نے افغانستان کی بدلتی صورتحال ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے حکومت کے مذاکرات بارے بھی تفصیلات سے آگاہ کیاگیا جہاں ایم کیو ایم اوراپوزیشن جماعتوں نے تحریک لبیک پاکستان اور ٹی ٹی پی سے جاری مذاکرات پر بھی سوالات اٹھا دئیے ۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میںبتایا گیا کہ عالمی برادری کے تسلیم کرنے پر ہی پاکستان افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا،داعش افغانستان کے لیےآج بھی بڑا خطرہ ہے،اس کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سے تعاون جاری ہےکیونکہ دشمن ممالک اس ساری صورتحال کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہیں ،انہوں نے بتا یا گیا بار بار عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت کو تنہا نہ چھوڑے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ ، اسپیکر قومی اسمبلی ،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ،سینیٹر یوسف رضا گیلانی ،سینئروزرا اورچیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو سمیت سیاسی قیادت نےبھی شرکت کی۔
اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان کی صورتحال اور داخلی سیکیورٹی کے معاملات پر بریفنگ دی ۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے بریفنگ پر اجلاس کے شرکا نے موقف اختیار کیا کہ تحریک طالبان پاکستان اپنے غلطیاں تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دے تو ریاست انہیں قبول کرسکتی ہے ۔
تحریک لبیک پر پابندی ہٹائے جانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پولیس والوں کو شہید کرنے سے تالی بجانے کی دہشتگردی بڑی نہیں،انہوں نے کہا ٹی ایل پی بحال ہو سکتی ہے تو ہمارا کیا قصور ہے۔
اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی ٹی ایل پی سے معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کردیا ۔
قومی سلامتی کا اجلاس ان کیمرہ ہونے کےباعث صحافیوں کو ایوان کی لابی تک جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ، حکام نے میڈیا کو صرف گیٹ نمبر ون اور پی آر اے کے دفتر تک رسائی کی اجازت دی ۔