مہنگائی اگر ہوشربا ہے تو حکومتی پیکیج بنیادی اشیاء اور پسماندہ شخص کی ضرورتوں کا تعین کر رہا ہے۔ 90 شاہراہ قائداعظم پر ہونے والی بریفنگ میں اسلام آباد سے ثانیہ نشتر اور چوہدری فواد ریلیف پیکیج پیش کر رہے تھے اوپر سے صحافیوں کے تنتناتے سوال کھل کر حکومتی پیکیج اور زمینی حقائق پر بات ہو رہی تھی پہلی مرتبہ صوبائی ترجمانی کی کرسی پر انتہائی پڑھے لکھے حسان خاور براجمان تھے عوام بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے پنجاب سے ”بونگیاں“ نہیں ماری جا رہیں بہت نپی تلی اور سوچی سمجھی بریفنگ دی جاتی ہے تو اس کا سبب بھی حسان خاور ہیں۔6 اکتوبر کی بریفنگ کے اہتمام میں راجہ جہانگیر انور سیکرٹری انفارمیشن کی انتھک کاوشوں سے نہایت جدید انداز کی بیٹھک جمی تھی اس میں یہ بات بھی خوش آئند کہ صحافیوں کو کسی قسم کی ڈکٹیشن یا سمت نہیں بتائی جاتی بلکہ حقائق، مجبوریاں اور سچ کی بنیاد پر ساری سچوئیشن سامنے رکھ دی جاتی ہے ماضی میں سیاست دان بریفنگ دیا کرتے تو الزامات کا بازار بھی گرم رہتا اور لفظی گولہ باری بھی حدود و قیود سے نکل جاتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی نے غریب، متوسط اور نئے نئے امیروں کی کمر توڑ دی ہے جبکہ حقیقی امیر کسی دیمک کی طرح مردہ لکیر بنے پھیلتے جا رہے ہیں اور وہ کیا متاثر ہوتے کہ ان کے سبب ہی تو سارے متاثرین ہیں۔
سردار عثمان بزدار پر بہت تنقید ہوتی رہی جو اب دھند صاف ہو رہی ہے تو اس کا سبب بہت سے ایسے معاونین کا رخصت ہو جانا ہے کہ جن کی موجودگی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”ہوئے تم دوست جس کے…… دشمن اس کا آسماں کیوں ہو…… جنوبی پنجاب میں حکومتی ڈھانچہ اور ترقیاتی کام ایک شخص کی اپنے علاقے سے محبت ہی ہے ایسے میں حد سے زیادہ بڑھ جانے والی مہنگائی باقی کاموں پر پانی پھیر رہی ہے مہنگائی کا جن کیوں بے قابو ہو گیا کھیت سے کنزیومر تک کتنے بندے درمیان میں پڑتے ہیں کہاں پر گھپلا ہے اس کوپن پوائنٹ کرنا از حد ضروری ہے۔ لوگوں نے ڈالر کا بہانہ کر کے مقامی اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچا دی ہیں …… پٹرول کی قیمتیں بھی ہر جنس کے نرخ پر اثر انداز ہونا لازمی ہے اس میں مقامی تاجر برادری اور کاروباری طبقہ بجائے ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے …… پٹرول کی قیمت اور ڈالر کی چڑھائی سے جن اشیائے ضروری کو متاثر ہونا چاہئے تھا بس اتنا ہی ہوتا مگر یہاں تو جیسے بہانہ مل گیا گزشتہ ایک ماہ میں چیزیں دگنی نہیں تگنی کا ناچ نچوا رہی ہیں۔
بریفنگ میں صحافیوں نے ایک ہزار کی سب سڈی پر بیسیوں مشورے دیئے کہ اسے پرچون فروش یا کریانہ سے منطبق کرنے اور اینڈ درائیڈ فون کے استعمال سے ڈیٹا بیس سب سڈی پر اٹھنے والے اخراجات کے بجائے بجلی کے بلوں میں ہزار روپیہ کم کر دیتے وہی لوگ ہزار بچا کر آٹا خرید لیتے اتنا لمبا وایا کاٹنے کی کیا ضرورت جواباً نہایت سکون سے ثانیہ سمجھاتیں کہ اصل مقصد اس پروگرام کو شروع کرنا اور لوگوں کو این لسٹ کرنا ہے وہ لوگ جو خط غربت سے نیچے ہیں بعد ازاں رقم کو ایک سے دو ہزار کرنے میں ایک منٹ لگتا ہے جبکہ ڈیٹا مرتب ہونا ہی اصل کام ہے۔ میں نے بھی سوال عرض کیا کہ حکومتی دعویٰ تھا کہ پانچ سال میں مہنگائی مکمل ختم ہو جائے گی بظاہر تو اس کے آثار نہیں لیکن اگر حکومت کے پاس کوئی معجزاتی پروگرام ہے تو بتائے…… جواب کیا ہوتا فگرز اور اعداد و شمار کا کھیل ہے جس سے لگتا ہے کہ پاکستانی معیشت ترقی کر رہی ہے مگر ہم نالائقوں کو پتہ نہیں چل رہا۔
اب ایسی عقل کا کیا کیجئے جو اس منطق کو سمجھ نہیں پا رہی Inflation بڑھنے سے قرضوں کے حجم کا بڑھ جانا اور اسی کم بختی مارے انفلیشن سے ٹیکس کولیکشن کا بڑھ جانا دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے…… اور اگر کوئی اونچے لیول کا حساب کتاب ہے بھی کہ جس کے مطابق ہم ترقی کر رہے ہیں مگر ہمیں پتہ نہیں چل رہا اور ماضی میں ڈالر و پٹرول کی ٹھہری ہوئی قیمتیں مصنوعی تھیں تو کیا بری تھیں ایسے ہی ایک ماضی کا پسندیدہ نغمہ یاد آ گیا۔ پل بھر کے لئے کوئی ہمیں پیار کر لے……جھوٹا ہی سہی اور یہی پیار اگر پانچ دس سال کر لے تو کیا مصنوعی اور کیا اصلی پانچ سال کا عرصہ اہم ہے پیار جھوٹا ہو یا سچا کیا فرق پڑتا ہے ویسے تو سابقہ وزیر اعلیٰ بلوچستان فرما ہی چکے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی …… اب مہنگائی اصلی ہے کہ نقلی لوگوں کو نگلے چلی جا رہی ہے گزشتہ والوں کی ارزانی مصنوعی تھی مگر دل کو بھلی لگتی تھی اور اگر یہ ارزانی بیس تیس سال پر محیط ہو جائے تو کیا کہنے ارزانی کے……
ایک نشست میں ترجمان پنجاب گورنمنٹ بھی اسی نکتے پر بات کر رہے تھے کہ ہمیں جو معیشت میں کامیابی اور ٹھہراؤ ملا ہے وہ ہم لوگوں کو نہیں سمجھا سکتے کہ لوگ تو اشیاء کی قیمتوں کو دیکھتے ہیں اس کے بعد ان تک اپنی بات کیسے پہنچائی جائے یہ بھی ٹھیک ہے کہ سختی کرنا پڑے گی اور اصل کلپرٹ پکڑنے ہوں گے اور دیگر یہ کہ پھر سے وفاقی وزراء کو مع مشیران روکنا ہو گا کہ وہ اس طرح کے بیانات نہ دیں کہ پوری دنیا میں اس سے زیادہ مہنگائی بڑھی ہے پٹرول دوسروں کی نسبت سستا ہے حکومتی پٹرول پر پھرنے والوں کے ایسے بیانات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں لوگ بھڑک اٹھتے ہیں کہ باہر کی مثالیں دیتے وقت وہاں کی سہولیات ٹیکس سے بننے والی سڑکیں صحت اور تعلیم کا موازنہ بھی کر کے دیکھیں۔TLP کے معاملے کو جہاں تک حکومتی وزراء لے گئے تھے اور ایسے ایسے بیانات داغ رہے تھے کہ تمام زندگی مفاہمت کی راہ نہ نکل سکے…… کہ کالم نگاروں و محب وطن لوگوں نے شور مچایا کہ وفاقی وزراء کو بیان بازی سے روکا جائے حد تو یہ کہ انڈیا سے فنڈنگ کی باتیں کی گئیں جبکہ پورا بھارت لرزتا حافظ سعید کے نام سے وہ کیوں کرنے لگے ایسے جماعت کی فنڈنگ جو لبیک یا رسول اللہؐ کا نعرہ لگاتی ہے۔ پورے ملک سے احتجاج آیا تو وزیر اعظم نے وزراء کو بیان بازی سے روک دیا اور ساتھ ہی کنٹرورسی Controvarcy تھم گئی معاملات ٹھیک سے بیٹھنے لگے تو بھی ہم نے یہی مشورہ دیا تھا کہ مذہبی جماعتوں اور علماء کی مدد لی جائے طاقت کے استعمال کی بات نہ کی جائے…… اپنے لوگوں سے لڑنا آسان نہیں۔ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اس مہنگائی پیکیج کی رقم بڑھا دی جائے گی اس میں صوبہ 65 فیصد اور وفاقی 35 فیصد خرچ کرے گا۔ چینی کے بارے میں یہی سنا کہ یہ وفاقی مسئلہ نہیں سندھ سے بھی یہی آواز آئی کہ سندھ میں آصف علی زرداری کی چینی کی کوئی فیکٹری نہیں جبکہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی ہیں۔ حیرت یہ کہ سندھ ہو یا پنجاب چینی مافیا بننے سے قبل یہ لوگ اسمبلیوں میں ہیں۔ساری شکر نا شکرے سیاست دانوں کا اثاثہ ہے۔
اوپر سے یہ ہی وہ آئیٹم ہے جیسے بہت زیادہ امیر طبقہ تو وائٹ یاٹزن کہتا ہے کم امیر بہت تھوڑی استعمال کرتا ہے مگر غریب تو چائے میں بھی چار چمچ لیتا ہے اس لئے امیر ترین لوگوں کو غریب اور کثیر تعداد کے لوگوں کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا……
برصغیر کا پرانا محاورہ ہے ”ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی“ یعنی منہ سے نکلی بات کوٹھے پر چڑھ کر بدنامی کرتی ہے اور اب تو کیمرے آ گئے اور شرارتی کمپیئر بھی جو بار بار کلپ جلا کر متضاد بیانات اور آئینہ آرسی رسم پوری کرتے رہتے ہیں اور بھی احتیاط کی ضرورت ہے لوگ یہ بیان بہت دہراتے ہیں کہ مہنگائی بڑھنے کا مطلب یہ کہ وزیر اعظم چور ہے خاکم بدہن لوگوں نے یہ فلسفہ وزیر اعظم ہی سے لیا ہے وزیر اعظم اپنا یہ بیان یوٹرن کر لیتے مگر اس سے گزشتہ وزرائے اعظموں کو بھی چوری کے الزام سے بری کرنا پڑے گا۔ لہٰذا مشکل ہے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مہنگا پٹرول چینی چوری کے سبب تھا مگر ابکے والی مہنگائی مصنوعی ہے اور معیشت ترقی کر رہی ہے مگر لوگوں کو نظر نہیں آ رہی……