حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (شاید اس کالم کی اشاعت تک وہ کالعدم نہ بھی رہے) کے درمیان ایک سمجھوتا طے پاگیا ہے۔ مگر اس دھرنے کی گرد ابھی تک جمی ہوئی ہے اور پاکستان میں ابہام ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس ابہام کی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کو اعلانیہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ مگر دونوں جانب سے دھواں دھار مباحثے بھی جاری ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر اس جماعت کے تمام مطالبات مان لیے ہیں۔ پھر بھی معاہدے کے کئی دنوں بعد تک بعض مقامات پر دھرنے کے شرکاء منتشر نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنے قائد سعد رضوی کی رہائی کا انتظار کررہے تھے۔ معاہدے کے دوسرے روز تحریک لبیک پاکستان کی نیابت کرنے والے مفتی منیب الرحمٰن نے یہ فرمایا کہ مطالبات میں سرے سے یہ نکتہ ہی نہیں تھا کہ فرانس کا سفارت خانہ بند کیا جائے یا فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجا جائے۔ اس سلسلے میں مفتی صاحب نے وفاقی وزیر فوادچوہدری اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا اور ان دونوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں جھوٹا بھی کہا۔ جب راقم نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ پچھلے دھرنے کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں سب سے اہم اور پہلی شق یہی تھی کہ فرانسیسی سفیر کے اخراج کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ نہ صرف فرانس کے سفارت خانے کو بند کرنے کا مطالبہ تھا، بلکہ یہ مطالبہ بھی تھا کہ فرانسیسی مصنوعات کا بھی سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ اخباری رپورٹ 20نومبر 2020ء کی ہے۔
اس سال 22اکتوبر کو کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے لاہور سے اسلام آباد مارچ کا آغاز کیا اور راستے میں دھرنا بھی جاری تھا۔ مطالبات یہ تھے کہ ان کے گرفتار رہنما سعد رضوی کو رہا کیا جائے اور فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے سے پچھلے معاہدے پر عمل درآمد نہ کیے جانے پر احتجاج کیا گیا۔ اس لحاظ سے مطالبے میں اس شق کی موجودگی ثابت ہوگی۔ پھر وزیر داخلہ نے اس سے قبل جو مذاکرات کیے تھے یعنی اسی ریلی کے دوران جس میں خود گرفتار سعد رضوی بھی شریک تھے، میں
حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ فرانسیسی سفارتخانے کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وزراء کا موقف درست معلوم ہوتا ہے۔
اس معاملے سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ شدّت پسندی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ خاکے کی بات نئی تو نہیں ہے۔ فرانس سے پہلے ڈنمارک میں بھی یہ واقعہ ہوچکا ہے۔ ایسے واقعات کے ردعمل کے طور پر مسلم ممالک میں غم و غصے کا اظہار ایک ظاہری عمل ہے، مگر کیا ایسے جذباتیت اور شدت پسندی سے مغربی ممالک کے کان پر جوں رینگے گی؟ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں حرکت میں آئیں اور عالمی سطح پر مل جل کر اقدامات کریں اور اس لحاظ سے تحریکِ لبیک پاکستان کا احتجاج ناجائز نہیں کہ وہ اپنی حکومت پر زور دے رہے تھے کہ وہ عملی اقدامات کرے۔ مگر اس سلسلے میں انہیں یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ اس وزیراعظم نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے عالمی سطح پر کوششیں کی ہیں، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی ہر تقریر میں اس حوالے سے دنیا پر زور بھی دیا ہے کہ جس طرح ہولو کاسٹ کے متعلق مغرب کا ایک سخت موقف ہے، اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر ایک قانون بنایا جائے۔
اب آئیے، ایک سیاسی جائزہ لیتے ہیں تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے مابین معاہدے کا۔ اس سے پہلے دھرنے کو بھی اسی طرح ہینڈل کیا گیا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت یا ریاست نے مظاہرین کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ شروع میں قومی سلامتی کونسل اور وزیراعظم کی کابینہ میں جو فیصلے کیے گئے، ان سے یہ جھلکتا تھا کہ ریاست کی سپرمیسی کو قائم رکھا جائے گا۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ان فیصلوں کے برعکس مظاہرین کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے گئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت کالعدم بھی نہیں رہے گی اور اس کے لیڈر کو رہا بھی کردیا جائے۔ اس طرح تو یہ ایک روایت بن جائے گی کہ کوئی گروپ زورِ بازو سے اپنی جائز یا ناجائز بات حکومت سے منوانے کی کوشش کرے گا۔ میں نے اس زمانے میں ان دھرنوں کے بارے میں بھی یہی لکھا تھا کہ کسی حکومت کو زیر کرنے اور گرانے کا یہ طریقہ مناسب نہیں۔ جب خود تحریک انصاف اور ڈاکٹرطاہر القادری کی جماعت نے دھرنے دیئے تھے اور ڈٹے ہوئے تھے کہ حکومت ختم ہوجائے۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی بھی جماعت کے جائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا جائے یا ہر مظاہرے کو روکا جائے، کیوں کہ یہ جمہوری طریقہ بھی ہے، مگر شدت پسندی اور اخلاقیات کا دامن کوئی فریق نہ چھوڑے تو یہ ملک و قوم کے لیے بہتر ہوتا۔ ایک بات اور بھی اس ضمن میں اہم ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی اکثریت شدت پسند ہے۔ انتخابات میں ایسی جماعتوں کی پزیرائی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، مگر چند برسوں سے بلکہ نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی کی ہوا بہت تیزی سے چلنے لگی ہے۔ یہ شگون ملک کے لیے سود مند نہیں۔ بعض سیاسی حلقے یہ سوچنے پر بھی مجبور نظر آتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں ایک سیاسی ہلچل کو روکنے کے لیے دوسرا مسئلہ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ اس دھرنے کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک ایک دم سے دب گئی ہے۔ نیب چیئرمین کے معاملے کو حکومت جس طرح ہینڈل کررہی ہے یا انتخابات کے لیے الیکٹرانک مشین پر جو کام ہورہا ہے یا تحریک ِ طالبان پاکستان سے جو مذاکرات ہورہے تھے، ان معاملات سے سیاست دانوں، میڈیا اور عوام کی توجّہ ہٹ گئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے مقاصد کو کام یابی سے ہم کنار کررہی ہے۔
پاکستان کے سیاستدانوں کو حالیہ واقعات کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ اگر شدت پسند جماعتیں مذہبی یا کسی اور مسئلے پر حکومتوں پر ڈکٹیشن دینے کی روایت ڈالیں گی تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ خارجہ تعلقات یا دفاعی حکمتِ عملی حکومتِ وقت کا اختیار ہوتا ہے۔ ان پر مشورے تو دیئے جاسکتے ہیں یا پارلیمنٹ میں پوچھا بھی جاسکتا ہے، مگر پارلیمنٹ سے باہر کسی کو اس بارے میں سخت موقف کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
حکومت اور ٹی ایل پی معاہدے پر ابہام دور ہونا چاہیے۔