جدید تہذیب کے ظہور کے بعد ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی قیمتی اشیا، اجناس اور دیگر تجارتی سامان غیروں کی رسائی سے محفوظ بنانے کے لئے مشینی آلات کے استعمال کی ضرورت محسوس کی، جس کی پہچان تالے اور چابی کے نام سے ہوئی۔ ابتدائی طور پر رسے یا اس سے ملتی جلتی دیگر اشیاء کو گانٹھیں لگا کر بطور تالا استعمال کیا گیا جو کہ چوری یا دوسروں کے غیر ضروری مداخلت سے کچھ حد تک محفوظ رکھتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ نت نئی ٹیکنالوجی سامنے آئی، جلد لکڑی اور دھات کے بنے تالے دنیا بھر میں استعمال ہونا شروع ہو گئے۔ آج بھی تاریخ دان یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کس قدیم تہذیب نے سب پہلے مشینی تالے کا استعمال شروع کیا۔ ان کی نظر میں مصریوں، یونانیوں اور رومنوں نے اپنے طور پر الگ الگ ہیئت و شکل کے تالے تیار کئے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کو دنیا کا قدیم ترین تالا موجودہ عراق کے علاقے نینوا میں اشوری دور کے ایک محل کے کھنڈر سے ملا جو کہ ماہرین کے مطابق لگ بھگ چار ہزار سال پرانا ہے۔ یہ گراری دار تالے کی ایک قسم تھا جس کا سب سے پہلے استعمال مصر میں شروع ہوا تھا۔
مشینی تالے کے استعمال کی تاریخ تقریباً 6ہزار سال پرانی ہے، قدیم مصر ی لوہاروں نے سب سے پہلے سادہ مگر مؤثر گراری دار پن والے تالے تیار کئے، جو کہ زیادہ تر لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ لکڑی کے ڈبے پر مبنی یہ تالا دروازے کے ساتھ چسپاں کیا جاتا تھا، اس میں ایک افقی کنڈی کھسکا دی جاتی تھی۔ کنڈی کے ساتھ سوراخوں کا ایک سیٹ ہوتا تھا جن میں پن جڑے ہوتے تھے۔ خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی لکڑی کی ایک بڑی اور بھاری چابی جس کی شکل آج کے ٹوتھ برش سے ملتی ہے، اس پر تالے کی پنوں اور سوراخوں کے مطابق کھونٹیاں گاڑ دی جاتی تھیں۔ اس چابی کو تالے میں ڈالنے کے بعد اٹھا کر پنوں کو حرکت دی جاتی جس سے کنڈی کھل جاتی تھی۔
قبل مسیح کے پہلے ایک ہزار سال کے دوران تالے کی ٹیکنالوجی، ڈیزائن میں خاطر خواہ بہتری آنا شرو ع ہوئی، ان میں بیشتر ڈیزائن یونانیوں اور رومنوں نے متعارف کرائے۔ یونانی تالے عموماً غیر محفوظ تصور کئے جاتے تھے، مگر انہی تالوں سے متاثر ہو کر روم کے موجدوں نے پہلی مرتبہ دھات کا بطور بنیادی میٹریل استعمال کر کے تالے تیار کئے جو کہ یونانی اور مصری لوہاروں کے متعارف کردہ تالوں سے کہیں زیادہ بہتر اور محفوظ تھے۔ بعدازاں لوہے کو استعمال کرتے ہوئے رومنوں نے طاقتور فوجی حملوں سے تحفظ کے لئے مضبوط تالے بنائے جن کی چابیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ جیب میں رکھنے کے علاوہ لاکٹ کے طور پر گلے میں لٹکایا اور چھلے میں پرویا جا سکتا تھا۔ اس دور کی چابیاں جن مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھیں، ان میں لوہا، تانبا، چاندی اور سونا شامل ہیں، یوں چابیوں سے لوگ اپنی سماجی حیثیت کا بھی مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں مخصوص میکانی شکل کے تالے بھی متعارف کرائے گئے جن میں یہ بات یقینی بنائی گئی کہ درست چابی ان میں موجود پنوں کو ہلا کر گھمائے اور کنڈی کو کھول دے۔
پہلی صدی عیسوی میں سلطنت روما کے زوال کے بعد قفل سازی میں نت نئی اختراع اور جدت مکمل طور پر رک گئی۔ جس کے بعد اگلے ڈیڑھ ہزار سال تک تالوں اور چابیوں کی ہیئت اور شکل میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔ اس دور کے قفل ساز امیر طبقے کے مستقل ملازمین میں شامل ہوتے تھے۔ نئی اختراع کے بجائے اس دور کے قفل سازوں نے چوروں اور مداخلت بے جا کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے تالوں کو زیادہ سے زیادہ پیچیدہ بنانے پر توجہ دی، عجیب و غریب ڈیزائن کے علاوہ متعدد چابیوں سے کھلنے والے تالے بنائے تا کہ چور کا زیادہ سے زیادہ وقت تالا کھولنے کی کوشش میں ہی ضائع ہو جائے، یہاں تک کہ وہ تنگ آ کر کوشش ترک کر دے۔ تاریک اور قرون وسطیٰ کے یورپی قفل سازوں کے پاس کوئی ٹیکنالوجی تھی نہ وسائل، پھر بھی انہوں نے بغیر چابی کے تالا کھولنے کے مختلف طریقے متعارف کرائے، تالا کھولنے کو مشکل تر بنانے کے لئے مختلف سجاوٹی سامان کے ذریعے چابی کے اصل سوراخ کی پہچان بھی مشکل بنا دی۔
قفل سازی میں حتمی جدت 18ویں صدی میں آئی، جب جدید ٹیکنالوجی نے انجینئرز کو چھوٹے اور مضبوط تالے تیار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس دوران 1778ء میں رابرٹ بیرونن نے دوہری گراری والا تالا جبکہ 1784ء میں جوزف براہما نے اپنا براہما تالا، 1818ء میں جرمیا شوب نے ڈیٹیکٹر لاک، 1848ء میں لینس یالے سینئر نے پہلا پن ٹمبلر لاک، جیمز سارجنٹ نے 1857ء اور 1873ء میں پہلا لاک میکانزم، 1916ء میں سیموئیل سیگل نے جرمی پروف لاک جبکہ 1924ء میں ہیری سورف نے پہلا پیڈلاک متعارف کرایا۔ آج دنیا میں جنتی بھی اقسام کے تالے استعمال ہو رہے ہیں، انہی انجینئرز کی ایجادات کی بنیاد پر تیار کئے گئے۔
صنعتی انقلاب کے بعد مختلف سائز اور استعمال کے تالے کارخانوں میں تیار ہونے لگے، آج 99.9 فیصد تالے کارخانوں میں بنتے ہیں، کثیر پیداوار کی وجہ سے قفل سازی کے پیشے میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، روایتی قفل سازوں کی جگہ ڈیزائنروں اور انجینئرز نے لے لی۔ آج کے قفل ساز کی حیثیت مستریوں سے زیادہ نہیں، جو کہ سڑکوں کی نکڑوں پر تالے مرمت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ آج ان کا شمار نئے تالا متعارف کرانے والے تخلیق کاروں یا ڈیزائنروں میں نہیں کیا جاتا۔ تاہم آج بھی بڑے صنعتی و تجارتی ادارے جن میں بینک بھی شامل ہیں، اپنی بھاری بھرکم کیش سیف اور والٹس کے لئے جو مہنگا لاکنگ سسٹم تیار کراتے ہیں، اس کے لئے وہ قفل سازوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود آج کے قفل سازوں کی اکثریت روز گار کے لئے صرف تالوں کی مرمت کا کام کرتی ہے، جس میں عام استعمال کے تالوں کے علاوہ گاڑیوں اور بھاری مشینری کا لاک سسٹم شامل ہے۔
آج کے جدید ڈیجیٹل دور میں نئے تالے اپنے روایتی ڈیزائن سے بالکل ہٹ کر بن رہے ہیں۔ چند عشرے قبل مقناطیسی چابیوں سے کھلنے والے تالے متعارف ہوئے، مگر آج جدید ٹیکنالوجی استعمال میں لاتے ہوئے ڈیجیٹل تالے بھی تیار ہو رہے ہیں، جن کا زیادہ تر استعمال ہوٹل اور دفاتر کرتے ہیں۔ یہ تالے مخصوص کارڈ یا پھر ”پاس ورڈ“ کی مدد سے کھولے جاتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں دفاتر اور بڑی دوکانیں کمپیوٹرائزڈ کیش سیف اور والٹس استعمال کرتی ہیں، جن میں بطور چابی استعمال کے لئے مخصوص شخص کی انگلیوں کے نشانات فیڈ کر دیئے جاتے ہیں، جو کہ عام طور پر دفتر یا دکان کا مالک ہوتا ہے۔ اسی طرح ذاتی کمپیوٹر اور موبائل فون کو بھی غیر متعلقہ شخص کی رسائی سے بچانے کے لئے بھی ان میں ”پاس ورڈ“ فیڈ کر دیا جاتا ہے۔
(بشکریہ: دی مارننگ کرونیکل)