لاہور :جمائمہ آفریدی ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں خواتین کو آزادانہ طور پر گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی انھیں تعلیم یا کھیل کود کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ وہاں نام نہاد 'غیرت' خواتین کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کرکٹ میں اپنا مقام بنانا چاہتی ہیں۔
یہ کہانی ہے 17 سالہ قبائلی طالبہ اور کھلاڑی جمائمہ آفریدی کی جو آج کل کرکٹ کے میدان میں قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔
سٹار کھلاڑی شاہد آفریدی سے متاثر جمائمہ آفریدی کا تعلق قبائلی ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل سے ہے جہاں وہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک تعلیمی ادارے میں انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہیں۔
جمائمہ آفریدی نے حال ہی میں پشاور میں پہلی مرتبہ پی ایس ایل کی طرز پر منعقد ہونے والے خواتین ٹی ٹونٹی سپر لیگ میں فاٹا کی ٹیم کی نمائندگی کی۔فاٹا کی ٹیم ویسے تو کئی کھلاڑیوں پر مشتمل تھی لیکن ان میں جمائمہ آفریدی واحد ایسی کھلاڑی تھیں جن کا حقیقی تعلق فاٹا سے ہے اور وہیں ان کی پیدائش ہوئی۔
اس ٹی ٹونٹی لیگ میں ملک بھر سے آئی ہوئی آٹھ ٹیموں نے شرکت کی۔ ان میں فاٹا اور کشمیر کی ٹیمیں بھی شامل تھیں۔