پاک امریکہ تعلقات عوام ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے امریکہ مخالف بیانیہ اپنانے کی کوشش کی لیکن افسوس ان میں سے بیشتر کے اپنے مفادات تو امریکہ سے ہی تھے بہت سے امریکہ مخالف سیاستدان ایسے بھی رہے ہیں جن کے بچے اور کاروبار امریکہ میں ہی تھے سابق عمران خان حکومت کے بہت سے قریبی مشیران کا تعلق بھی امریکہ سے ہی ہے۔پاک امریکہ رومانس میں اکثر ہمارے عوام ہی قربانی کا بکرا بنتے رہے ہیں جبکہ اس دوران ہمارے حکمران اپنے فوائد اٹھاتے رہے ہیں ۔ماضی میں چند باتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح امریکہ نے ہمیں سبز باغ دکھا کر ہمیں نقصان پہنچایا ان میں ایک اہم منصوبہ پاک ایران گیس لائن کا تھا جس کا فائدہ براہ راست عوام کو ہونا تھا اور انھیں سستی گیس ملنا تھی اس سلسلے میں صدر زرداری کے دور میں ایران اپنا کام مکمل کر چکا تھا پاکستان نے ابھی اس منصوبے کا افتتاح ہی کیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو ایران سے گیس کی پائپ لائن لینے سے منع کردیا اور فرمان جاری کیا کہ اگر پاکستان نے ایران سے گیس لی تو اسکے تباہ کن نتائج نکلیں گے۔ گویا پاکستان کو دھمکی دی گئی ۔ تباہ کن نتائج کے سلسلے میں دلیل یہ دی گئی ہے کہ چونکہ ایران پر پابندیاں عائد ہیں لہٰذا اگر پاکستان نے ایران کیساتھ ڈیل کی تو یہ پابندیوں کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ملک پر پابندیاں عائد تھیں اس نے کبھی امریکی اور اسکے اتحادیوں کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کی پروا نہیں کی ۔ اس نے چین اور کوریا کیساتھ تجارتی تعلقات قائم کرکے اپنے نت نئی منڈیاں تلاش کیں ایران نے ایک دفعہ بھی پابندیوں پر تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ جس ملک پر پابندیاں عائد ہیں اسے اس ضمن کوئی پروا یا فکر نہیں ہے اور ایک دوسرے ملک کو پابندیوں کا ایکٹ یاد دلایا گیا۔ امریکی دھمکی کے فوری بعد ایوان صدر میں ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں سول وعسکری قیادت نے اس نئی صورتحال پر غور کیا دوسری طرف امریکہ میں متعین اس وقت کی پاکستانی سفیر شیری رحمان نے شرکا کو امریکی تحفظات سے آگاہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا یہ پیغام پاکستانی حکام تک پہنچایا گیا کہ پاکستان نے امریکہ کے حکم کے مطابق عمل نہ کیا تو اس پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ لہٰذا وہ امریکی جبر سے بچنے کیلئے ایران کے بجائے ترکمانستان سے پائپ لائن لے سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اب ہمیں بجلی،گیس ،تیل کے بعد اشیائے خوردنی کی خریداری کیلئے بھی امریکہ بہادر سے پوچھنا چاہئے ؟ کہ جناب ہم گندم خریدنا چاہتے ہیں کہاں سے خریدیں؟ ہمیں چینی درکار ہے کس ملک سے لی جائے؟ ہمیں پٹرول چاہیے عرب امارات سے لیں یا سعودیہ سے یا پھر آپ براہ راست دیں گے؟۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے معاملات میں اس قدر داخل ہو چکا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک ہیں۔بلوچستان میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو قرارداد امریکی کانگریس میں پیش کی جاتی ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں چند شدت پسند پائے جاتے ہیں تو خطرہ امریکہ کولاحق ہوجاتا ہے اور ہمارے علاقوں میں ڈرون حملے امریکہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے،اور اگر ہم ایران سے بجلی اور گیس لینے کی بات کریں تو کوہستان جیسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں ،بلوچستان کی علحیدگی کی تحریک چلا دی جاتی ہے ۔ہماری صنعتیں تباہ کرنے کے لئے زبردستی بھارت سے تجارت کروائی جاتی ہے۔ یوں تو امریکہ کو پوری دنیا کے مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ اس لیے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ اسلامی دنیا کو ٹارگٹ کیا جا سکے۔امریکہ کو تو خاص طور پر سارے مسلمان دہشتگرد نظر آتے ہیں اور مسلمان جو ان کی بات سنتے اور مانتے ہیں زیادہ عتاب کا شکار ہیں۔پاکستان کے ہر ترقیاتی منصوبے میں امریکہ کا عمل دخل ہے۔ خاص طور پر بجلی،پانی،تیل اور گیس کے معاملات تو چلتے ہی امریکی پالیسی کے تحت ہیں۔ جو مسلمان ملک امریکہ کی بات نہیں مانتا۔ اپنی خود مختاری کو امریکہ کی جھولی میں نہیں ڈالتا۔ وہ ایران کی طرح پابندیوں کی زد میں رہتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس پر بے جا اور احمقانہ قسم کی پابندیاں عائد ہیں جبکہ اسے دوسرے تیسرے دن امریکہ کی طرف حملے کی دھمکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہم اگر اپنی سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں امریکی حصار سے نکلنا ہوگا۔ اگر اب بھی ہم نے اپنی سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ نہ کیا اور امریکہ کے ناجائز مطالبات مانتے گئے تو ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن برآمد ہوتے رہیں گے۔ اور ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوس ہاتھ جوڑ کر امریکہ کو واپس کیے جاتے رہیں گے۔ بہر حال اب بہت ہوگئی ہے پاکستان نے امریکہ کی غلامی بہت کرلی ہے۔ اب اسے اس غلامی سے نکلنا ہوگا، ورنہ ایٹمی طاقت بننے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔اور ہم غلامی سے تب ہی نکل سکیں گے جب ہمارے سیاستدان اپنے مفادات امریکہ سے ختم کر کے مشترکہ طور پر کوشش نہیں کرتے اور پاکستان کو معاشی طور پرمضبوط نہیں کرتے ورنہ امریکہ کے مفاد میں تو یہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے سامنے ایڑیاں رگڑتے رہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے جب بھی اور جتنی بار بھی پاکستان کی مالی امداد کی اس نے بیک فائر کیا اور آخر کار ہمارے آلام و مصائب میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا۔ صرف ایک ماضی میں آنے والے کیری لوگر بل کا جائزہ لیں تو اس میں چھپے امریکی عزائم باآسانی نظر آ جاتے ہیں کہ ساڑ ھے سات بلین ڈالر کی امداد کی ہمیں کیا قیمت ادا کرنا پڑی ۔اسکی چند شقوں کا جائزہ لینے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کتنا متنازعہ تھا ان میں سب سے اہم پاکستان میں سول اتھارٹی او ر فوج کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،کیونکہ اس میں کہا گیا کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ سویلین حکومت ملٹری پر کس حد تک کنٹرول رکھتی ہیں۔دوسری متنازعہ شق مرید کے اور کوئٹہ کے حوالے سے تھی کہ حکومت ان شہروں میں کارروائی کرے گی۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں پاکستانی حکومت امریکا سے تعاون جاری رکھے گی،یہاں تک کہ ایسے نیٹ ورک سے وابستہ کسی بھی پاکستانی تک امریکا کو براہ راست رسائی فراہم کی جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر شقوں کو شامل کرانے میں بھارتی لابی نے بھرپور کردار ادا کیا ۔اس کے علاوہ سب سے خطرناک کام امریکا کی پاکستان کے تعلیمی نظام میں دخل اندازی تھی ۔ خاص طور پر دینی مدارس کے نصاب میں جہاد کے موضوع کو امریکا فوری طور پر نکال دینا چاہتا تھا۔سالہا سال سے امریکہ پاکستان کی تاریخ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی عوام امریکہ کو ایک مطلب پرست ملک ہی سمجھتی ہے جو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے۔