بوتل والا جن چاہیے

بوتل والا جن چاہیے

ایک فرم کا مالک اپنے دو ماتحتوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے نکلے کہ راستے میں انہیں ایک بوتل پڑی نظر آئی ۔ایک ماتحت نے وہ بوتل اُٹھائی اس پہ ڈھکنا لگا ہوا تھا اور بوتل کے اندر کوئی دودھیا سی چیز نظر آرہی تھی اُن میں سے ایک ماتحت نے آگے بڑھ کر بوتل کو اُٹھا لیا ار ڈھکنا کھولاتو بوتل میں موجود دودھیا دھوئیں نے ایک جن کی صورت اختیار کر لی۔۔۔جن جیسے ہی بوتل سے نکلا تو نہایت خوفناک آواز میں بولا کہ آپ نے مجھے اس بوتل سے نجات دلائی آپ تینوں اپنی اپنی خواہش بتائو میں پوری کروں گا۔ان میں سے جس نے بوتل اُٹھائی وہ بولا کہ سب سے پہلے میں اپنی خواہش بتائوں گا سب نے کہا ٹھیک اُس نے اپنی خواہش بتائی تو جن نے چٹکی بجائی اور پوری کر دی اور پھر اسی طرح دوسرے نے اپنی خواہش بتائی جن نے وہ بھی چٹکی بجائی اور پوری کر دی،اسی طرح تیسرے شخص کی بھی خواہش پوری کی اور وہ تینوں اپنی اپنی خواہش پوری ہونے پہ بہت خوش ہوئے ۔
اس ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے کیونکہ اُن کی بھی خواہشات اُن کی خواہشات کو پورا کرنے اور ملک کے مسائل  اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اب بوتل والا جن لازمی ہے کیونکہ اس کے سوا اب حل کوئی نہیں بچا یہ بات میں اس لیے کہہ رہی ہوں جو گزشتہ کچھ روز سے خبریں آرہی ہیں مہنگائی اور دوسرے ملکی مسائل کی اب اپوزیشن حکومت میں ہے جو کہ اپوزیشن میں تھے تو یہ دعوی کر رہے تھے کہ عوام مہنگائی سے مر رہی ہے اگر ہم ہوتے حکومت میں تو یہ کر دیتے اور وہ کر دیتے دعوے تو ایسے کہ شاید دودھ شہد کی نہریں بہا دینی تھی مگر اب وہ ہمیشہ کی طرح ماضی کی حکومت کو اب قصور وار ٹھہرا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے آج یہی محسوس ہوا کہ ان سب کے بس کی تو شاید بات ہی نہیں رہی کیونکہ ان سب کو بھی ایک بوتل والا جن چاہیے۔
اب پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کس طرح سے وزیراعلیٰ نے حلف اُٹھایا مزید یہ خدشہ محسوس کر رہی ہوں کہ شاید اپوزیشن لیڈر کے خلاف بھی مہم شروع ہونے والی ہے۔ایک بات اہم جو کہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سابق حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں پنجاب کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا اور 43ٹرانزیکشنوں کے ذریعے کروڑوں روپے ادھر اُدھر منتقل کیے گئے ابھی تک الزامات در الزامات جاری ہیں اور اس سارے رمل میں نقصان کس کا ہو رہا ہے ملک کا۔
سب سے اہم بات جو کہ عوام امید لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ جب یہ لوگ اپوزیشن میں تھے تو مہنگائی کم کرنے کا دعوی کرتے تھے کیونکہ اب وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے ملک کے لیے معاشی مشکلات کھڑی کیں اب یہ گلہ تو ان کا بنتا ہی نہیں ہے قدرت نے آپ کو اقتدار بخشا ہے آپ ان مشکلات کو سہولتوں اور آسانیوں میں بدل دیں۔ہمیشہ حکومت اپوزیشن کوــ،اور اپوزیشن حکومت کو قصور وار ٹھہراتی آئی ہے مگر میں جو محسوس کر رہی ہوں کہ ان میں سے شاید کسی میں بھی اتنی ذہانت نہیں ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی بہتر پالیسی بنا کر ملک کو بحرانوں سے نکال سے جبھی میں یہ بات کہہ رہی ہوں کہ ملک کو بھی بحرانوں سے نکالنے کے لیے یوں ہی کوئی بوتل والا جن ہی چاہیے ہوگا۔
دوسری طرف سابق وزیر اعظم عران خان کا یہ بیان ہے کہ اداروں میں کرپٹ نظام چلانے والے بیٹھے ہیں ۔یہ بیان پڑھ کے یوں لگا مجھے کہ جیسے کوئی لطیفہ پڑھ لیاہو ویسے تو اُن کی ہر بات کسی جوک یا چٹکلے سے کم نہیں مگر اس بیان سے خصوصی اس لیے ہنسی آئی کہ یہ بات کہتے ہوئے اُن کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ وہ اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اداروں میں اپنی ہی جماعت کے پڑھے لکھے لوگ تو بیٹھا نہ سکے اور نہ ہی ڈھنگ کے لوگ جتنی کرپشن اس ساڑھے تین سالہ دور میں عروج پہ گئی کہ اگلے پچھلے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے اور یہ اب بھی ایسی بات کر رہے ہیں ۔ان کے دور اقتدار میں بھی بہت سے اداروں پہ وہی پرانے ن لیگ کے لوگ ہی تعینات رہے ہیں اتنے زیادہ عرصے میں یہ تو پوری طرح اپنے لوگ بھی اداروں پہ بیٹھا نہ سکے ۔
اور بہت سے اداروں میں وہ لوگ تھے جنہوں نے ایم پی ایز اور ایم این ایز پہ انویسٹ کیا تھا تبھی تو یہ لوگ پرائس کنٹرول کمیٹیوں تک کو نہ سنبھال سکے۔ اب اپوزیشن میں جا کر پھر سے جلسے اور جلوسوں کا بازار گرم ہو چُکا ہے آخری جلسہ جو کہ 20مئی ملتان میں ہوگا۔اب میں یہ یاد دلانا چاہتی ہوں کہ جب عمران خان اقتدار میں تھے تو یہ کہا کرتے تھے کہ جلسے اور جلوسوں سے ملکی معیشت پہ منفی اثر پڑتا ہے مگر اب یہ اپوزیشن میں آئے تو پھر سے یہ سب جائز ہو گیا ان ساری چیزوں کا تو ایک ہی مطلب ہے کہ ہر ایک کو اقتدار میں ہی رہنا ہے اگر اقتدار سے نکالا جائے کا تو ملک اور عوام کو یوں ہی رولیں گے۔
وہ کام تو کیے ہی نہیں جا رہے اب بھی جو کرنے چاہیے اب بھی اقتدار کی ہی کھینچا تانی عروج پہ ہے۔قومی معیشت عدم استحکام کے خطرے سے دوچار ہے ،زرعی شعبہ شاید اس سال بھی غذائی خود کفالت کی منزل کو نہ پہنچ سکے گا جبکہ ہمارا ملک زرعی ہے،اگر ہم اس پہ توجہ دیں تو بھاری زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن دھینگا مشتی سے باہر نکلیں تو کچھ ہو سکے گا۔
سابق وزیر داخلہ جن کو تو میں نہایت ہی غیر ذمہ دار شخص سمجھتی ہوں جنہوں نے جب بھی گفتگو کی نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ کی اب ان کا نیا بیان کہ لانگ مارچ خونیں ہو سکتا ہے۔اُن کی اس بات پہ صر ف افسوس ہی کر سکتے ہیں اس سے پہلے بھی ایک بات کہی تھی جو میں تمام پارٹی کارکنان کو اس کالم کی وساطت سے بتانا چاہوں گی کہ پارٹی ورکر تنکوں کی طرح ہوتے ہیں ان کو آگ لگاتے جائو اور سیاست کو چمکاتے جائو ۔
پارٹی ورکرز وہ ہوتے ہیں جو جھنڈا ،اُٹھاتے ہیں ،جو جلسے میں کرسیاں لگاتے ہیں،جو نعرے لگاتے ہیں،وہ غریب ہوتے ہیں جب اُن کے کندھوں پہ بیٹھ کے کرسیوں پہ پہنچتے ہیں تو اُن کے لیے ان کے گھروں کے دروازوں کے ساتھ ساتھ ان کے نمبر بھی بلاک کر دئیے جاتے ہیں اور خون بھی یہی لوگ ان کے لیے دیتے ہیں اس لیے ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔
یہ ملک سدھارنا اب ان میں سے کسی کے بس میں نہیں رہا یہ سب بس اپنی اپنی سیاست چمکانے نکلے ہیں اب تو ہم سب کو ایک ہی دعا کرنی چاہیے کہ کوئی بوتل والا جن آئے تو ہما ری ملک و قوم کی قسمت کو سنوار دے۔

مصنف کے بارے میں