رمضان کے آخری عشرے میں ایک طوفانِ بدتمیزی سیاسی بگولوں جھکڑوں کے بیچوں بیچ چل رہا تھا۔ قیمتی ساعتیں اس تیز رفتاری سے ہاتھوں سے نکلی چلی جارہی تھیں گویا یہاں ٹھہرنا ہی نہ چاہتی ہوں۔ کانوں میں ادھر ادھر سے خبریں، بیانات، بھنھناتی مکھیوں کی مانند آتے اور تابِ شنیدن نہ پا کر نکل جاتے۔ اب جو لسانی سونامی (جس کی دھمکیوں کی لہروں پر سوار خان صاحب ملکی سیاست میں طلوع ہوئے تھے۔) کا کچھ احوال پڑھا سنا دیکھا تو رواں رواں کانپ اٹھا۔ من حیثیت القوم اتنی گراوٹ برداشت کی گئی؟ حفیظ تائب کامرثیہ نوک قلم سے ٹپکا پڑ رہا ہے:
اے نویدسیحاؑ تری قوم کا حال عیسیٰؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا، اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبیؐ۔ سچ مرے دور میں جرم ہے عیب ہے، جھوٹ فنِ عظیم آج لاریب ہے۔ ایک اعزاز ہے جہل وبے راہ روی، اک آزار ہے آگہی یا نبیؐ … تحسین فراقی نے بھی تصویر کشی کی تھی:
اس عہد کے مصلحوں کے ہاتھوں، دامانِ خیر دھجیاں ہے۔ اس امت بے جہت کا ہر فرد، افتاں خزاں یہاں وہاں ہے۔ پانی پانی پکارتا ہے، آوارۂ دشتِ بے اماں ہے۔ اے ذاتِ احد تعالیٰ کے ناز بردارؐ، امت تری خادم بتاں ہے۔ کل تک جو میرِ کاررواں تھی، اب دیکھو تو گردِ کارواں ہے!
یہ کہانی جب کنٹینر دھرنوں میں شروع ہوئی تو ماتھا تو جبھی ٹھنکا تھا۔ پالنے میں (اس نئی تہذیب کے) پاؤں پہچانے جاسکتے تھے کہ یہ آگے چل کر کیا گل کھلائے گی۔ سونامی بھری تبدیلی کا نتیجہ نظر تو سونامی اترنے کے بعد ہی آنا تھا۔ (دنیا میں انڈونیشیا اور جاپان کا سونامی اترنے کے بعد کا حال نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔) یہ اپنے پیچھے تہس نہس، تباہی بربادی کے سوا کچھ نہیں چھوڑتی۔ یہاں معاشی بربادی کی اذیت ناک داستان اپنی جگہ، مگر تہذیبی دیدوں کا جو پانی ڈھلا ہے تو حیا اور غیرت، لحاظ اور مروت کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ ایک منظم بدتہذیبی، ہلڑ بازی، بدکلامی بصد اہتمام پروان چڑھائی گئی۔ سوشل میڈیا کی سان چڑھاکر اس کی برق رفتاری نے … صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ اس نئے بیانیے میں بلند آہنگ موسیقی کا پس منظر لیے، نعرے، فاشسٹ، انارکسٹ رویے، مغلظات، جذباتی واویلے، سنجیدہ دلائل اور مکالموں کی جگہ لے چکے۔
منظم، مہذب سامعین کی جگہ ہلڑباز ہجوم بلاتفریق ِمرد وزن جلسوں کا شعار بن گیا ہے۔ امریکا کو بے مصرف بے معنی جھوٹی کھوکھلی للکاریں لگائی گئیں، جاہلانہ پیرائے میں۔ ’امریکا! تمہاری معافی کی ضرورت نہیں!‘ امریکا اس وقت ان کے تماشوں کے لیے فارغ کہاں بیٹھا ہے؟ ابھی افغانوں کے لگائے زخم چاٹ رہا تھا کہ روس یوکرین میں چیلنج بن کر آن ٹپکا! ایک دریا کے پار اترا تو اسے بھی ایک اور دریا کا سامنا تھا! یوں بھی مغرب ہمیں ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں پھانس کر ہر حکمران کی بولتی بند کرچکا ہے۔ (ہماری تو عید بھی اسی لیے صرف ہجومِ مومنین ہے۔ شکوہِ ملک و دیں افغانوں کی سچی عید ہے! اقبال کے مطابق۔) اب حکومت چھن گئی تو بے معنی للکاروں کا کیا حاصل؟ یوں بھی عمرانی کابینہ کے وزیر مشیر حواری سبھی امریکی گرین کارڈ یا شہریتوں کے حامل ہیں۔ سو وہ ان بڑھکوں کے کھوکھلے پن سے بخوبی واقف ہیں! یہ صرف سستی شہرت کے لیے چھوڑی جانے والی ہوائیاں ہیں۔ عمران خان کے ہیولے میں ہوا بھربھرکر جو قدآور کیا جاتا رہا، اب سبھی کچھ عقل وخرد کا ساتھ چھوڑ گیا۔ نعوذباللہ نبوت کے پیرائے میں (جہالت، لاعلمی کی بنا پر) دیدہ دلیرانہ بہت کچھ کہا سنا جاتا رہا۔
ایک گاڑی شہر میں عمران خان کے نام کے پوسٹر پر موصوف کے لیے ’پیس بی اپون ہِم‘ (PBUH) انگریزی میں پورا لکھ کر گھومتی رہی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی بھیجنے کے لیے مخصوص ومختصر پیرایہ، اب خان کے نام ہوا…؟ پھر اسی طرح جنون کی لہر میں اپنے دیوانوں کو پکارکر انبیاء کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح تم میرا پیغام لے کر پھیل جاؤ۔ فرمانبردار یوتھیوں نے عمرانی پیغام اپنی اسی سوشل میڈیائی لغت ہائے شیطانی میں (میڈیا پر بالخصوص) پھیلانا شروع کیا، تو قوم کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ یہ سب آج تک ورلڈ کپ کے نشے میں چور ہر جگہ چوکے چھکے وکٹ بیٹ مزاج ہی میں رہتے ہیں۔ پائے کرکٹریاں چوبیں بود، پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود! سو صرف حکومت ہاتھ سے نہیں گئی۔ غرور وگھمنڈ کا نشہ عزت ووقار واختیار سے بھی محروم کرگیا۔ اخلاقی گراوٹ کے مظاہر کو جب سوشل میڈیا پر بروقت لگام نہ دی گئی تو روزافزوں جہالت نے پوری مسلم دنیا میں ہمیں بے توقیر کردیا۔ ہماری گودوں کے پالوں نے دربار رسالتؐ میں، مسجد نبویؐ میں بے ہنگام آوازیں بلند کیں۔ اسلام سے کلیتاً ان پڑھ، نابلد، لارڈ میکالے کے تعلیمی تیزاب کے پروردہ کیاکر گزرے …انہیں خبر یا احساس تک نہیں!!
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر، نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا! جنید وبایزید کی رکتی سانسوں کا کیا تذکرہ، یہ تو قدرت اللہ شہاب کی وارفتگی کی گرد کوبھی نہیں پہنچتے جو سول سروس کا پروردہ، خاکِ مدینہ کی محبت میں چٹکی زمین سے بھر کر آنکھوں میں پروکر آنکھیں سجائے روضۂ مبارک پر حاضری کو پہنچے۔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف!یہ ٹی ٹوئنٹی، پی ایس ایل میں ناچتی چیئر گرلز سے آلودہ نگاہوں والے، درود وسلام کے مقام پر مغلظات، سیاسی بغض میں بھگو بھگو کر مرد وزن کی تمیز کیے بغیر برساتے رہے۔ قہر تو یہ ہے کہ شیخ رشید کا بھتیجا کفن پھاڑکر بولا: ’مسجد نبویؐ کا واقعہ عمران خان کی فتح ہے۔‘ یہودیوں نے تم لوگوں کو مسجد نبویؐ (معاذاللہ) فتح کرنے کو بھیجا تھا…؟ وہ مقام نبوت جس کے لیے آواز اونچی نہ کرنے کا حکم نازل ہوا تو سیدنا عمرؓ مارے خوف کے کہ اعمال ضائع نہ ہو جائیں سرگوشیوں پر اتر آئے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ روتے ہوئے گھر میں بند ہو گئے کہ یہ آیات مجھ پر عتاب کی ہیں کہ میری آواز اونچی (قدرتاً) تھی۔ آیت ملاحظہ ہو: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اورنہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘ (الحجرات۔ 2) یہ آیت ہماری کوثر وتسنیم سے دھلی شائستہ پاکیزہ اعلیٰ ترین تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ گفتگو کے آداب ہر سطح پر اللہ نے خود ہمیں سکھائے۔ عام حالات میں بھی چیخنے چنگھاڑنے سے منع کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ بدترین آواز گدھے کی آواز ہے، اپنی آواز پست رکھو۔ (لقمان) اور مسجد نبویؐ میں تو زمین پر جنت کا ٹکڑا ہے۔
ذہن میں رکھ آیہ لاترفعوا اصواتکم، بات کر طبعٔ پیغمبر ؐ کی نفاست دیکھ کر۔ ہمیں یہ بھی سکھایا کہ شعائر اللہ کا احترام دلوں کے تقوے سے ہے! اس مقام پر بے ادبی نری بدتہذیبی نہیں، تقویٰ، خداخوفی سے تہی دامن ہونے کی علامت ہے۔ آیت 3 میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور آواز پست رکھنا تقویٰ کی علامت فرمایا گیا اور اس پراللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ۔ شانِ رسالتؐ نہ سمجھنے کی بنا پر اتنے حساس اور نازک معاملے پر نوجوان نسل فیس بک، ٹاک شوز، واٹس ایپیوں میں خدانخواستہ لاپروائی کی مرتکب ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا آیت 2، بنیادی عقیدے سے ہونے کی بنا پر نصابوں میں بہ اہتمام پڑھائی جانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس پر ایمان وعمل کا دارومدار ہے۔ لاعلمی یا گستاخی حبطِ اعمال (اعمال ضائع، غارت ہوجانا) کا سبب بن سکتی ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت میں مال مرکز ومحور ہے اعمال کی خبر نہیں (جو دائمی زندگی کی کرنسی ہے)۔ یہ لاعلمی 22 ہزار وولٹ کی تاروں کو چھوکر بھسم ہو جانے والا انجام لیے ہوئے ہے۔ علمی کسی مپرسی کا یہ عالم ہے کہ … نہ دنیا ہے نہ دیں! (حال تو یہ ہے: رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو! اور یہ رہزن بے خدا نظامِ تعلیم ہے۔) اس افسوسناک واقعے پر شدید گرفت کی ضرورت ہے۔ ارکان دین، مسلمات دیں، ضروریات دین، سب سے نابلد عجب دنیا گزشتہ 20 سالوں میں اُگ آئی ہے۔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی… سو آج یہی چنگیزی ہم چہار جانب دیکھ رہے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں دیو استبداد، بدترین استبدادی، ڈکٹیٹری رویے لیے ہجوم در ہجوم قوم کی گردن پر سوار ہے۔ قوم 74 سال میں بھی پختہ فکر، فہم وفراست سے عاری نظر آتی ہے۔ فسق وفجور ذہانت اور صلاحیت کو زنگ آلود کر دیتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ کالی اسکرینوں کی اسیری کے ہاتھوں۔ گستاخی معاف!
گر بہ میر و سگ وزیر و موش دربانی کند
ایں ہمہ ارکانِ دولت ملک ویرانی کند