تحریک عدم اعتماد پیش ،آئین کیا کہتا ہے؟ 

تحریک عدم اعتماد پیش ،آئین کیا کہتا ہے؟ 
سورس: File

اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد اراکین کو ایک تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانا ہوتا ہے۔

اس کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد اس تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔

قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 179 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ  اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی، جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے، نے فی الحال کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔

مصنف کے بارے میں