ایک بادشاہ نے اپنے فرزندِ ارجمند کے ایک بہترین اتالیق کا بندوبست کیا۔ شہزادہ اپنے استاد محترم سے سبق پڑھ رہا تھا۔ استاد محترم نے اسے دو جملے پڑھائے۔جھوٹ مت بولو، غصّہ نہ کرو۔ یہ دونوں عمل آپ کی زندگی کو بہترین بنا دیں گے۔کچھ دیر کے وقفے کے بعد شہزادے کو سبق سنانے کو کہا گیا تو شہزادے نے جواب دیا استاد مکرم مجھے ابھی سبق یاد نہیں ہو سکا۔ دوسرے دن پھر استاد محترم نے سبق سنانے کو کہا شہزادے نے پھر عرض کیا کہ ابھی تک بھی سبق یاد نہیں ہو سکا۔ تیسرے دن چھٹی تھی۔ استاد نے کہا کہ کل چھٹی ہے لہٰذا کل لازمی سبق یاد کر لینا بعد میں مَیں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔چھٹی کے بعد اگلے دن بھی شاگرد خاص سبق سنانے میں مسلسل ناکام رہا اور سبق یاد کرنے کی وجہ نہ بتا سکا۔ استاد محترم یہ خیال کیے بغیر کہ شاگرد ایک شہزادہ ہے اور میں ایک معمولی اتالیق ہوں۔طیش میں آکر ایک تھپڑ رسید کردیا کہ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اتنے دنوں سے دو جملے یاد نہیں ہو سکے۔تھپڑ کھاکر ایک دفعہ تو شہزادہ گم سم ہوگیا اور ہمہ دم خاموشی اختیار کرلی پھر بولا کہ استاد محترم! سبق یاد ہو گیا۔ استاد کو بہت تعجب ہوا کہ پہلے تو سبق یاد نہیں ہورہا تھا اور تھپڑ کھاتے ہی فوری سبق یاد ہوگیا۔شہزادہ عرض کرنے لگا کہ استاد محترم ! آپ نے مجھے دو باتیں پڑھائی تھیں۔ جھوٹ نہ بولو۔ غصّہ نہ کرو۔جھوٹ بولنے سے تو میں نے اسی دن توبہ کرلی تھی لیکن غصّہ نہ کرو یہ مشکل کام تھا۔ بہت کوشش کرتا تھا کہ غصّہ نہ آئے لیکن غصّہ آجاتا تھا۔ اب جب تک میں غصّے پر قابو پانا نہیں سیکھ جاتا تو کیسے کہہ دیتا کہ سبق یادہوگیا؟ آج جب آپ نے تھپڑ مارا اور یہ تھپڑ بھی میری زندگی کا پہلا تھپڑ ہے ، اسی وقت میں نے اپنے دل و دماغ میں غور کیا کہ غصّہ آیا کہ نہیں؟ غور کرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ غصّہ نہیں آیا۔آج میں آپ کا بتایا ہوا دوسرا سبق کہ ’’غصّہ نہ کرو‘‘ با لکل سیکھ لیا ہے۔آج اللہ کے فضل سے مجھے مکمل سبق یاد ہوگیا ہے۔آپ بیرون ملک چلے جائیں۔آپ کو کہیں بھی لکھا نہیں ملے گا کہ خالص دودھ،خالص گھی،خالص شہد،خالص اجزاء سے تیار فلاں چیز،خالص تانبا،خالص آٹایاسو فیصد خالص انار کا جوس وغیرہ وغیرہ۔ وہاں لفظ خالص کا تصور خالص تک ہی ہے وہاں ان چیزوں میں ملاوٹ کا تصور موجود ہی نہیں کہ بھلا ان میں بھی ملاوٹ کی جاسکتی ہے۔وہ اپنی برانڈز کے نام یروشلم کی کسی عبادت گاہ یاروم کے کسی چرچ کے نام پر بھی نہیں رکھتے کہ مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما پائیں۔وہ اقوام اپنی چیزوں کو بہتر سے مزید بہتر کر کے مارکیٹ میںلاکر ایمانداری سے زیادہ سے زیادہ بِکری چاہتی ہیں اور ہمارے ہاں انداز ہی نرالہ ہے۔ اسلامی شہد، گھی، مکی، آٹا وغیرہ اور مزید اضافہ کہ سو فیصد خالص ارے بھائی یہ خالص لکھنے کی نوبت ہی کیوں پیش آئی ؟کیوں کہ جناب یہاں ہر طرف مکاری ہے، جھوٹ، فریب، ملاوٹ ہے۔
ایک دن کسان کی بیوی نے جو مکھن کسان کو تیارکر کے دیا وہ اسے لے کر فروخت کرنے کے لئے اپنے گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہو گیا، یہ مکھن گول پیڑوں کی شکل میں بنا ہوا تھا اور ہر پیڑے کا وزن ایک کلو تھا۔ شہر میں کسان نے اس مکھن کو حسب معمول ایک دکاندار کے ہاتھوں فروخت کیا اور دکاندار سے چائے کی پتی، چینی، تیل اور صابن وغیرہ خرید کر واپس اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔کسان کے جانے بعد دکاندار نے مکھن کو فریزر میں رکھنا شروع کیا اسے خیال گزرا کیوں نہ ایک پیڑے کا وزن کیا جائے۔ وزن کرنے پر پیڑا 900 گرام کا نکلا، حیرت و صدمے سے دکاندار نے سارے پیڑے ایک ایک کرکے تول ڈالے مگر کسان کے لائے ہوئے سب پیڑوں کا وزن ایک جیسا اور 900 – 900 گرام ہی تھا۔
اگلے ہفتے کسان حسب سابق مکھن لے کر جیسے ہی دکان کے تھڑے پر چڑھا، دکاندار نے کسان کو چلاتے ہوئے کہا کہ وہ دفع ہو جائے، کسی بے ایمان اور دھوکے باز شخص سے کاروبار کرنا اسکا دستور نہیں ہے۔ 900 گرام مکھن کو پورا ایک کلو گرام کہہ کر بیچنے والے شخص کی وہ شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ کسان نے یاسیت اور افسردگی سے دکاندار سے کہا: ‘‘میرے بھائی مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غریب اور بے چارے لوگ ہیں، ہمارے پاس تولنے کے لئے باٹ خریدنے کی استطاعت کہاں۔ آپ سے جو ایک کلو چینی لے کر جاتا ہوں اسے ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں اتنے وزن کا مکھن تول کر لے آتا ہوںہم وطنو!ہمیں بھی چاہیے کہ جو قول زریں ہم لکھتے پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں ان پر عمل کریں۔ عمل ہی سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے اورعمل ہی سے زندگی بنتی ہے اور بہترین زندگی بنتی ہے۔اگر ہم لمحہ موجود پر غور کریں تو ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔عمل ہمارے کردار سے کوسوں دور ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری