واشنگٹن: جوبائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود ڈھائی ہزار فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے تمام آپشنز بدستور زیر غور ہیں اور یکم مئی سے متعلق وعدے پر کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ بیان سیکریٹری اسٹیٹ بلینکن کے اس بیان کے بعد جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی سربراہی میں امن کوشش کے لیے زور دیا تھا جس میں یکم مئی تک امریکی فوجیوں کے انخلا کی تنبیہ بھی شامل تھی۔
بلینکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ امریکا یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا پر غور کر رہا ہے اور اسی طرح دیگر آپشنز پر بھی غور کر رہے ہیں۔ افغان عہدیداروں کی جانب سے اشرف غنی اور امن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ کو لکھے گئے خط کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ اس میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے آخری دورے پر افغان رہنماؤں کو آگاہ بھی کیا تھا اور تبادلہ خیال بھی کیا گیا تھا۔
عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ زلمے خلیل زاد کے دورہ کابل سے دو روز قبل ہی صدر اشرف غنی اور مجھے خط موصول ہوا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'امریکا نے یکم مئی کے بعد افغانستان میں اپنی افواج کی موجودگی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور تمام آپشنز زیر غور ہیں'۔
سیکریٹری اسٹیٹ کے خط کے مطابق امریکا اعلیٰ سطح کی سفارتی کوششیں کر رہا ہے کہ معاملات تیزی سے حل کی جانب بڑھیں اور مکمل اور مؤثر جنگ بندی ہو۔
انہوں نے لکھا کہ امریکا اقوام متحدہ سے بھی کہے گا کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ کو جمع کریں تاکہ افغانستان میں امن کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس حوالے سے ترکی سے بھی کہے گا کہ 'آنے والے دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدے کو حتمی شکل دینے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی میزبانی کرے'۔
بلنکن نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد سیکیورٹی حالات پر تشویش ہے کہ مزید خرابی آئے گی اور طالبان تیزی سے معاملات میں ہاتھ میں لیں گے اور امید ہے کہ اشرف غنی میری جلد بازی کے رویے کو بھی سمجھ پائیں گے۔