کابل: افغان دار الحکومت کابل سے 70 کلومیٹر دور ایک وادی ایسی بھی جسے اپنے نوجوان خود کش مجاہدین پر فخر ہے۔ افغانستان کے مشرق میں واقع سرسبز وادی تنگی کے تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی خود کش مجاہد ضرور ہے جن پر ماؤں ، بہنوں، بیویوں، والد اور بھائیوں کو فخر ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کےمطابق طالبان سے تربیت یافتہ خودکش مجاہد اسماعیل عاشق اللہ افغان جنگ کے عروج پر خود کو دھماکے سے اڑانے کا موقع گنوا دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ خودکش مشن کے لیے تربیت یافتہ خصوصی بریگیڈ میں شامل ہونے سے پہلے اسماعیل نے آٹھ سال تک طالبان کے ساتھ امریکی زیر قیادت غیر ملکی افواج اور افغان فوجیوں کے خلاف جہاد کیا۔
اسماعیل کا کہنا ہے کہ 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کا مطلب یہ تھا کہ میں نے اپنا موقع گنوا دیا۔
25 سالہ عاشق اللہ جس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے کہتے ہیں جب مجھے میرے اعلیٰ افسران نے بتایا کہ مجھے بٹالین میں شامل ہونا ہے تو میری خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ اللہ نے مجھے منتخب کیا ہے۔
میں جہاد کر رہا تھا لیکن کچھ کمی محسوس ہوتی تھی اس لیے میں نے سوچا کہ مجھے ایک ایسا آپریشن کرنا ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں اور میرا دل مطمئن ہو۔ عاشق اللہ نے اپنے والد اور طالبان کے انٹیلی جنس نمائندوں کی میں صحافیوں سے بات کی یہ ایسی وادی ہے جسے اپنے مجاہدین اور غازیوں پر فخر ہے۔
طالبان ترجمان بلال کریمی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ظاہر ہے کہ استشہادی مجاہدین (خودکش مجاہد) کا کردار نمایاں تھا۔ امارت اسلامیہ کی تمام افواج بالخصوص ان مجاہدین نے اپنے قومی اور اسلامی جذبے کے ساتھ مقابلہ کیا۔
2001 میں طالبان کی پہلی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کو سہارا دینے کے لیے باغیوں کے خلاف دو دہائیوں تک جنگ لڑی۔
تنگی وادی، جس میں کم از کم 22,000 افراد رہتے ہیں، زیادہ تر جنگ کے دوران طالبان کے کنٹرول میں تھی۔ امریکی افواج نے 2009 اور 2011 کے درمیان وادی کے قریب ایک اڈے پر قبضہ کر لیا تھا اور یہاں طالبان کے ارکان کی تلاش میں فوجیوں نے باقاعدگی سے رات کے چھاپے مارے تھے۔
غیرملکی فوجیوں نے ان گھروں پر دھاوا بول دیا جہاں خواتین تنہائی میں رہتی تھیں اور یہ مقامی رسم و رواج کے مطابق ایک بہت بڑی بے عزتی تھی جس پر افغانوں میں غصہ پیدا ہوا۔
ایک اور خودکش مجاہد عبدالوہاب سراج نے کہا، ہمارے پاس مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ہتھیار نہیں تھا اس لیے ہم نے خود کو دھماکا خیز مواد سے لیس کرنے اور کافروں کی پناہ گاہوں میں داخل ہونے کے لیے ان کے جبڑوں کو توڑنے اور ان کی ہڈیوں کو راکھ کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنانا مناسب سمجھا ۔
ہم اللہ کی محبت میں اس قدر دیوانے تھے کہ ہمارے لیے زندگی کی کوئی اہمیت نہیں رہی. ہم شہادت کے ذریعے جلد از جلد اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بیٹے نے ایسے ہی ایک حملے میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
ایک اور شہری میر اسلم امیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اتنا خوش کبھی نہیں دیکھا جتنا اس وقت دیکھا جب وہ خودکش حملہ کرنے کے لیے نکلا تھا۔ تنگی وادی میں 60 سالہ میر اسلم امیری جنہوں نے 1980 کی دہائی میں سوویت حملے کے خلاف جنگ لڑی تھی اپنے 20 سالہ بیٹے نجیب اللہ کی خودکش مجاہد کے طور پر کامیابی پر شدید فخر کر رہے ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا جب وہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہوا تو میں نے اس سے کہا، 'بیٹا! جاؤ اور جہاد شروع کرو... کافروں نے ہمارے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے اس لیے تمہیں اب جہاد کرنا چاہیے' ۔اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر پہنچتے ہی اس نے اپنی بیوی آمنہ سے کہا: مبارک ہو، تمہارا بیٹا شہید ہو گیا۔
ایک لمبے سفید پردے کے پیچھے اپنا چہرہ چھپا کر آمنہ نے اپنے شوہر سے اتفاق کیا۔اس نے اتنی چھوٹی عمر میں ایک بہت ہی باوقار کام کیا ۔ اس نے امریکی فوجیوں کے ہمارے گھر پر چھاپہ مارنے اور خاندان کے لوگوں کی پٹائی کے بعد مجاہد بننے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ میری اجازت سے گیا تھا لیکن اس کی یاد مجھے اب بھی آتی ہے۔
نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔