کراچی: سندھ اسمبلی میں ایم ایم اے کے رکن سید عبدالرشید کی جانب سے اٹھارہ سال کی عمر والے بچوں کی لازمی شادی سے متعلق بل منظور نہیں ہو سکا۔
آج ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے کئی نجی بل منظور ی کے لیے پیش کئے گئے لیکن حکومت کی جانب سے ان بلوں کی مخالفت کے باعث کوئی ایک بل بھی منظور نہ ہوسکا، جس میں ایم ایم اے کے رکن سید عبدالرشید کا اٹھارہ سال کی عمر والے بچوں کی لازمی شادی سے متعلق بل بھی شامل ہے۔
اس مسودہِ قانون کو رکن اسمبلی عبدالرشید نے گزشتہ ماہ سندھ لازمی شادی ایکٹ 2021ء کے نام سے پیش کیا تھا جس میں سندھ حکومت سے اس امر کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ والدین اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے اپنے عاقل بچوں کی لازمی شادی کرائیں اور اگر والدین اپنے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی شادی میں تاخیر کرتے ہیں تو انہیں ڈپٹی کمشنر کے پاس ٹھوس وجوہات کے ساتھ تحریری طور پر آگاہ کرنا ہو گا اگر والدین تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ دے سکیں تو ان پر جرمانہ کیا جائے۔
اسمبلی میں وزیر برائے پارلیمانی امورمکیش کمار چاولہ کی مخالفت کے باعث یہ بل منظور نہ ہو سکا اور اسپیکر نے اسے مسترد کر دیا ۔ سندھ اسمبلی کی خاتون رکن رابعہ اظفر کی جانب سے سندھ پروہیبیشن آف میتھا میٹافائن کا غیر سرکاری بل پیش کیا گیا تھا جو بعد میں انہوں نے واپس لے لیا گیا جبکہ ایوان نے پی ٹی آئی کی رکن ادیبہ حسن کا ایک اور نجی بل بھی رد کر دیا۔ ادیبہ حسن نے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی میں ترمیم کا غیر سرکاری بل پیش کیا تھا۔
وزیر پارلیمانی امور مکیش کمار چاولہ کی مخالفت کے بعد ایوان نے اس غیر سرکاری بل کو بھی مسترد کر دیا۔ تحریک انصاف کے سعید آفریدی نے سود کے خلاف غیر سرکاری بل ایوان میں پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سود حرام ہے اس لیے یہ بل ایوان سے منظور کیا جائے۔ مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ اس طرح کاسرکاری بل ہم ضرور لے کر آئیں گے لیکن فی الوقت اس کی منظوری نہیں دلا سکتے جس کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل پندرہ جون تک ملتوی کر دیا گیا۔