مجھے پی ٹی آئی کے تھنک ٹینکس کو سراہنا ہے کہ وہ ایسی ایسی ٹریمنالوجیز متعارف کرواتے ہیں کہ ان سے جڑے تصورات اور نعرے زبان زد عام ہوجاتے ہیں جیسے نیا پاکستان اور جیسے ریاست مدینہ، جیسے آزادی کا نعرہ اور جیسے رجیم چینج کانسپریسی۔ موخرالذکر کے ذریعے وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو ایک مداخلت اور ایک سازش قرار دیتے ہیں جس میں امریکہ سے لے کر مقامی مقتدر حلقے بھی شریک ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں رجیم کا مطلب سمجھنا ہے ، یہ حکومت کو بھی کہتے ہیںا ور کسی ایسے نظام کو بھی جس کے تحت ایک طے شدہ طریقے سے امور سرانجام دئیے جا رہے ہوں ۔ کانسپیریسی کا مطلب ہے سازش یعنی ایک ایسا عمل جو آئینی ،قانونی اور جائز حیثیت نہ رکھتا ہو یا اس عمل کے کرنے والے آئینی، قانونی اور جائز مقام نہ رکھتے ہوں۔
اگر ہم تحریک عدم اعتماد کو رجیم چینج کانسپیریسی قرار دیتے ہیں تو ہمیں تحریک عدم اعتماد کو سازش کا ذریعہ اور آلہ سمجھنا ہو گا۔ اگر تحریک عدم اعتماد اتنی ہی غلط اور بری چیز ہے تو پھر یہ دنیا بھر کے پارلیمانی اور صدارتی نظاموں میں جائزیت کے ساتھ شامل کیوں ہے، چلیں، مان لیتے ہیں کہ یہ عمل درست ہے مگر بعض اوقات اس عمل کو کرنے والے آئینی ، قانونی اور پارلیمانی جائزیت نہیں رکھتے تو یہ بات ثابت ہوچکی کہ تحریک عدم اعتماد کے پلئیرز میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) ہی شامل تھے۔ یہ جماعتیں اپوزیشن میں تھیں اور اپوزیشن ہی تحریک عدم اعتماد لاتی ہے۔ آئین میں یہ راستہ وزیراعظم سے اختلاف کرنے والوں کے لئے ہی رکھا گیاہے ۔ یہ بارہا کہاجا چکاکہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مقتدر حلقوں کی طرف سے کسی پارلیمانی جماعت کو نہ فون کیا گیا اور نہ کوئی پیغام بھیجا گیا تو پھر ایک عمل جو آئینی اور قانونی ہے اور اسے آئینی اور قانونی عاملین نے ہی سرانجام دیا ہے تو اسے سازش کیسے کہا جاسکتا ہے، ہاں، امریکا کانام زیب داستاں کے لئے ہے اور اس پر بھی معافی مانگی جا چکی ہے۔
ہمارے ایک دوست رضوان رضی المعروف دادا پوتا شو ، جو پی ٹی آئی والوں کے نبض شناس سمجھے جاتے ہیں اور اکثر ان کی دکھتی رگیں دباتے رہتے ہیں، فرما چکے ہیں کہ پی ٹی آئی والے جو جرم لمحہ موجود میں کر رہے ہوتے ہیں یا کر چکے ہوتے ہیں اس کا الزام عین اسی دوران دوسروں پر دھر رہے ہوتے ہیں تو حقیقت میں رجیم چینج کانسپیریسی کیا تھی اور کس طرح ہوئی، اسی نکتے کے ذریعے اسے سمجھنے اور آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم یہ ثابت کرچکے کہ تحریک عدم اعتماد کو سازش نہیں کہا جا سکتا اور اس کے پارلیمانی پلئیرز کو سازشی بھی نہیں تو پھر اس سے پہلے بھی حکومت اور نظام کی تبدیلی کی ایک کامیاب کوشش ہوئی تھی اور اس کو کرنے والے اپنی ریٹائرمنٹس کے بعد اعترافات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ حقیقی ’رجیم چینج کانسپیریسی‘ کا آغاز دس، گیارہ برس پہلے ہوا جب پرویز مشرف کے طاقتور دور کے بعد قاف لیگ بھرپور کوششوں کے باوجود الیکشن ہار گئی اور تتر بتر ہو گئی۔ اس وقت ضرورت محسوس کی گئی کہ پرانی، روایتی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی) کی جگہ پر ایک نئی قوت سامنے لائی جائے اور اگر یہ کوشش آئینی اور عوامی ہوتی تو میں اسے ہرگز سازش نہ کہتا۔ یہ کوشش وہاں سے کی جار ہی تھی جو اس کوشش کے لئے بااختیار نہ تھے اور وہ کر رہے تھے جو اس کوشش کے لئے مجاز نہ تھے سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آئینی، قانونی، پارلیمانی اور جمہوری پیرایوں میں سازش کی تعریف پر پوری اترتی تھی اور ہے۔
رجیم چینج کانسپیریسی کا آغاز پاشا صاحب نے کیا تھا جب 30 اکتوبر 2011کا جلسہ ترتیب دیا گیا تھا۔ اس سازش کے تحت ہی دھرنے ترتیب دئیے گئے تھے اور اس وقت کے کرتا دھرتا جناب ظہیرالاسلام بھی دھرنوں والوں سے اپنی وابستگی کو بے نقاب کر چکے ہیں اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ ہم اپنی مکمل تاریخ مکمل سچ کے ساتھ کب لکھ سکیں گے کیونکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ ماڈل ٹاون سے اے پی ایس تک کے سانحے بھی اسی سازش سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے تھے۔ یہ سارا عمل نہ عوامی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہو رہا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی سطح پر جو کہ اس کے لئے مجاز ادارے تھے سو اس کوشش کو ہی سازش کہا جاسکتا ہے۔ اس کوشش میں نیب کے ادارے کا نام بھی آتا ہے جس نے ،عدالتی فیصلوں میں درج ہے کہ ،پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے اپنا غیر آئینی اور غیر قانونی کردارادا کیا۔ اس میں ثاقب نثار صاحب اور ان کے ساتھیوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے منتخب وزرائے اعظموں کو گھر بھیجا اور پھر اپنی نگرانی میں جیل ۔ تاریخ بتا رہی ہے کہ یہ سب کچھ آئینی، قانونی ، پارلیمانی اور جمہوری نہیں تھا لہذا ہم اسے سازش کہتے ہیں تو اس اصطلاح کے استعمال یا اس کی تفہیم میں کوئی غلطی نہیں کرتے۔ یہ معاملہ بہت آگے گیا تھا اور ان دو صاحبان سے بھی آگے جن کے نام زبان زد عام ہیں ۔
تاریخ دانوں نے تاریخ کے پنوں پر لکھ دیا کہ 2018کے انتخابات کس طرح ہوئے تھے۔ اس کے لئے پری پول رگنگ بھی کی گئی تھی جب الیکٹ ایبلز کو بھیڑ بکریوں کی طرح پی ٹی آئی میں دھکیلا گیا تھا یا کرپشن اور غداری کے حوالے سے کچھ دستیاب اینکرز،کالم نگاروں اورتجزیہ کاروں کے ذریعے فضا بنائی گئی تھی۔الیکشن کے روز دو مرحلے تھے پہلا ووٹروں پرغیر مرئی قسم کا دباؤ تھا اور دوسراسب کے سامنے آر ٹی ایس بیٹھ گیاتھا، مسلم لیگ نون کے حق میں آنے والے نتائج رک گئے تھے اور جب دوبارہ آرٹی ایس چلا تھا تو نتائج پی ٹی آئی کے حق میں آنے لگے تھے۔یہ سازش یہاں ہی نہیں رکی تھی بلکہ تعداد پوری کرنے کے لئے جہاں باپ کو باپ بنایا گیا تھا وہاں ایم کیو ایم کو بھی ماں کا درجہ دیا گیا ۔رجیم چینج کانسپریسی کی تکمیل کی گواہی ’ نصر من اللہ و فتح قریب‘ کا ایک ٹوئیٹ بھی تھا جس کے بعد جناب عمران خان ایوان وزیراعظم میں پہنچ گئے تھے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اس سازش کی تکمیل پری میچور بے بی کی پیدائش جیسی تھی لہٰذا اسے انتہائی نگہداشت کی ضرورت تھی اور دو، اڑھائی سال تک اسے نرسری میں بھی رکھا گیا تھا اور بقول چوہدری پرویز الٰہی اس کی نیپیاں بھی تبدیل کی گئی تھیں۔
سو پیارے دوستو! ہم اس دو ر میں رہتے ہیں جہاں پروپیگنڈہ حقیقت پر چھا جاتا ہے جیسے یہ پروپیگنڈہ کہ آئینی اور جمہوری قوتوں کی طرف بااختیار قوتوں کا ایک آئینی اور قانونی عمل یعنی تحریک عدم اعتماد رجیم چینج کانسپیریسی تھا، ایسا ہرگز نہیں تھا، دماغ کی بتی جلا اور تعصب کی آگ بجھا کے دیکھو، رجیم چینج کانسپیریسی ایک طویل عمل تھا جو دس برس سے بھی زائد جاری رہا مگر چالاکی اور ہوشیاری تو ملاحظہ کیجئے کہ جو اس رجیم چینج کانسپیرینسی کے اصل پلئیر اور حقیقی ونر تھے انہوں نے اس سازش کو ناکام بنانے کو ہی سازش قرار دے کر لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔