یہ امر کو ئی ڈھکا چھپا نہیں کہ وطنِ عز یز میں اس مرتبہ کے مو سمِ گرما میں3 ہزار 535میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے 9 بڑے پاور پلانٹس ایندھن کی قلت کی وجہ سے کام نہیں کر رہے، ان میں چار پلانٹس ایسے شامل ہیں جو ایل این جی کی کمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں، دو فرنس آئل کی قلت کی وجہ سے، ایک کم کوئلے کی انوینٹری کے سبب اور ایک گیس سپلائی کے معاہدے کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے بند ہے۔ پاکستان میں توانائی کا حالیہ بحران کیوں پیدا ہوا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ غور کیا جائے تو ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد کرنا درست نہیں ہو گا بلکہ اس کی وجہ سابق حکومت کے 2018 سے لے کر 2022ء تک کے اقدامات اور فیصلے ہیں۔ حکومت نے سستی بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر کام کو سست کر دیا اور جو کچھ منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے درکار تھا وہ کیا ہی نہیں۔ اوپر سے عالمی مارکیٹ میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پاکستان میں توانائی کے شعبے کو آپریشن تھیٹر تک پہنچا دیا۔ سابق حکومت نے جن منصوبوں پر کام نہیں کیا ان میںکیرٹ ہائیڈرو اور شنگھائی تھر کے منصوبے شامل ہیں جن پر کام کی رفتار سست کی گئی۔ سابق حکومت نے ان پراجیکٹ کی اونر شپ اور مانیٹرنگ کے ایشو پر کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ دوسرا ، پہلے سے مکمل شدہ منصوبوں کے معاہدوں کی شرائط پر عمل نہیں کیا۔ ساہیوال کول پراجیکٹ اور حب پاور جیسے مکمل منصوبوں کے لیے ریوالونگ اکاؤنٹ کھولنے میں حکومت کی ناکامی سے مسائل بڑھے۔ اس کا مطلب ہے کہ سی پیک کے تحت اب توانائی کے شعبے کے لیے مزید فنانسنگ نہیں ہوگی۔ سابق حکومت کو یا تو سی پیک انرجی فریم ورک کی اہمیت کا ہی پتہ نہیں تھا یا سادہ الفاظ میں وہ اس کا گلا گھونٹ کر اسے ختم کرنا چاہتی تھی۔ کیرٹ ہائیڈرو کی پیداواری صلاحیت 720 میگا واٹ ہے اور اس کی تکمیل کی اوریجنل تاریخ فروری 2022 اور متوقع تاریخ جولائی 2022ء تھی جبکہ تھرکول بلاک (1)اور مائین کی پیداواری صلاحیت 1214میگاواٹ اوریجنل کمپلیشن تاریخ مئی 2020 تھی جبکہ ایکچوئل متوقع تاریخ مئی 2023 تھی اور اسی طرح ایک اور بہت ہی اہم منصوبہ پنجاب تھرمل RLNG پاور پلانٹ کا ہے۔ یہ پلانٹ جھنگ میں تریموں کے مقام پر ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت 1263میگاواٹ ہے اور سابق حکومت نے اس منصوبے کو 3سال سے زائد عرصے تک التوا کا شکار رکھا اور اس کی وجہ بھی نیب کیسز اور اس کے فنانشل کلوز تھے۔ اگر یہ تین منصوبے بروقت مکمل ہو جاتے تو 32سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی جس کی وجہ سے پورے پاکستان کے شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جانا تھا جس کا آج ملک کو سامنا ہے خواہ عالمی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتیں کتنی بھی بڑھ جاتیں۔ ان میں سے دو کو تو درآمدی فیول کی ضرورت ہی نہیں تھی جبکہ تیسرا ہائی ایفیشنسی LNG پلانٹ تھا جسے درآمدی کوئلہ
اور ریذیڈیول فیول آئل کی بنیاد پر چلنا ہے۔ سابق حکومت نے مہنگی LNG خریدی حالانکہ کورونا وباء کے دوران یعنی 2020 کے وسط تک عالمی مارکیٹ میں RLNG کی قیمتیں خاصی گر گئی تھیں۔ اس وقت RLNG کی قیمت تین ڈالر فی MMBTU تھی مگر یہ موقع ضائع کر دیا اور اس کے بعد اگر اس موقع پر خریداری کا طویل مدتی معاہدہ کر لیا جاتا تو پاکستانی صارفین کو سستی بجلی مہیا کی جا سکتی تھی۔ جون 2018 میں گردشی قرضے کی مالیت 1252بلین روپے تھی جو مارچ 2022 میں بڑھ کر 2467 ہوگئی۔ گردشی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا کم ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور نگران حکومت کے دور تک ڈالر 115روپے سے بڑھ کر 191 روپے تک پہنچ گیا۔ گردشی قرضے میں اضافے کی وجہ سے حکومت نجی پاور کمپنیوں کو وقت پر ادائیگی کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پر دباؤ بڑھ گیا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ کے پاس کوئلے کے ذخائر کم ہو گئے۔ ایک پاور پلانٹ کا کوئلہ کراچی میں پھنسا رہا کیونکہ اس کے پاس کوئلہ کلیئر کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔موجودہ حکومت 12اپریل 2022 کے بعد سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پی ایس او اور پی ایل ایل ملک میں ایل این جی کی درآمد میں مصروف ہیں۔ قطر پیٹرولیم ؍قطر انرجی کے ساتھ ایل این جی کی فراہمی کے معاہدے کے تحت، پی ایس او 5+2 ایل این جی کارگو درآمد کرنے میں کامیاب رہا۔موجودہ حکومت نے اپریل سے لے کر جون 2022 تک اس کی LNG اسپاٹ پرچیزنگ کر کے پاور سیکٹر کو RLNG کی سپلائی میں اضافہ کیا۔ پٹرولیم ڈویژن 16اپریل 2022ء سے پاور ڈویژن کی ڈیمانڈ کے مطابق آر ایف او کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ آئل انڈسٹری کے پاس30جون تک 277,000 MT اسٹاک موجود تھا جبکہ 130,000 MT کے دو کارگو بندر گاہ پر موجود ہیں۔ جولائی 2022 تک 180,000 MT کی درآمد کا منصوبہ ہے۔ یوں یہ ارینجمنٹس جولائی 2022 کے دوران پاور ڈویژن کی ڈیمانڈ پوری کردیں گے۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کو توانائی کا بحران ورثے میں ملا ہے۔ اگر سابق حکومت توانائی کے منصوبوں پر پوری توجہ دیتی اور توانائی کے مختلف منصوبوں کو مالیاتی سپورٹ فراہم کرتی رہتی تو آج ملک میں توانائی کا بحران پیدا نہ ہوتا اور نہ ہی گردشی قرضے کا بوجھ اس حد تک بڑھتا۔ سابق حکومت کا سارا زور سیاسی مخالفین پر مقدمات بنانے اور بیان بازی پر لگا۔ سابق حکومت سی پیک کے تحت انرجی منصوبوں کو بروقت مکمل کر لیتی تو اس کا فائدہ سابق حکومت کو بھی پہنچتا اور اس کی عوام میں ساکھ بہتر ہوتی۔ بہرحال موجودہ حکومت کو توانائی کے حصول کے لیے بہت زیادہ محنت سے کام کرنا ہو گا۔ پہلا کام تو توانائی کے بند منصوبوں کو فعال کرنا ہے اس کے بعد جو منصوبے چل رہے ہیں لیکن اپنی پوری صلاحیت کے مطابق نہیں چل رہے انھیں پوری صلاحیت سے چلانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یقینا توانائی کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا بھی ایک بڑا کام ہے لیکن اس کے ساتھ توانائی کے مختلف ذرائع کو سستا کرنا بھی ملک کی صنعتی اور کاروباری ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پٹرولیم ڈویژن پاور سیکٹر کے لیے مطلوبہ ایف آر او کا انتظام کرنے کے لیے پوری طرح سے متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ بلاشبہ توانائی میں خود کفیل ہونا کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ توانائی میں خود کفیل ہو سکے بلکہ پاکستان کے پاس توانائی کے جتنے منصوبے موجود ہیں اگر انھیں ہی پوری صلاحیت کے مطابق چلایا جائے تو پاکستان ضرورت سے زائد بجلی پیدا کر سکتا ہے اور یہ بجلی سستی بھی ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر انرجی کے ذرائع کو استعمال کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان تاحال ایک انرجی (کوئلہ، تیل، گیس وغیرہ)کو استعمال کر کے دوسری انرجی پیدا کر رہا ہے اس طریقہ کار کے تحت قومی خزانے پر مالی بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگر پاکستان گرین انرجی یعنی سولر انرجی ، ونڈ انرجی اور پانی سمیت دیگر قدرتی ذرائع کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دے تو پاکستان کے پاس گیس،کوئلہ اور پٹرول کی بھی خاطر خواہ بچت ہو سکتی ہے۔